آیات 2 - 3
 

وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ وَ جَعَلۡنٰہُ ہُدًی لِّبَـنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ؕ﴿۲﴾

۲۔ اور ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اس (کتاب) کو بنی اسرائیل کے لیے ہدایت قرار دیا کہ میرے علاوہ کسی کو کارساز نہ بناؤ۔

ذُرِّیَّۃَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ ؕ اِنَّہٗ کَانَ عَبۡدًا شَکُوۡرًا﴿۳﴾

۳۔ اے ان لوگوں کی اولاد جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں)سوار کیا تھا! نوح یقینا بڑے شکر گزار بندے تھے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الۡکِتٰبَ: واقعہ معراج اور بڑی نشانیوں کا مشاہدہ کرانا کوئی انوکھی بات نہیں بلکہ یہ سنت الہٰیہ کا تسلسل ہے۔ چنانچہ ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور بنی اسرائیل کے لیے سامان ہدایت فراہم کیا۔ موسیٰ علیہ السلام کو ہدایت کی کتاب عنایت ہوئی تو اس کتاب کا خلاصہ : ’’اللہ کے علاوہ کسی کو کارساز نہ بناؤ‘‘ تھا۔ رسول اسلام (ص) کو معراج کے ذریعے عزت و تکریم سے نوازا ہے تو موسیٰ علیہ السلام کو بھی کتاب ہدایت عنایت کی ہے۔

۲۔ ذُرِّیَّۃَ مَنۡ حَمَلۡنَا مَعَ نُوۡحٍ: ان عنایتوں کا سلسلہ نوح سے چلا آرہا ہے جن کی تم اولاد ہو۔ تمہیں کشتی کے ذریعے غرق ہونے سے نجات دی۔ نوح اس عنایت کے شکر گزار رہے ہیں۔

رخ کلام دراصل اہل مکہ کی طرف ہے۔ تاریخ انبیاء کی روشنی میں اللہ کی طرف سے انبیاء پر ہونے والی عنایتوں کا ذکر ہے۔ اگلی آیت میں ناشکری کی صورت میں پیش آنے والے نتائج کا ذکر ہے۔

اہم نکات

۱۔ دعوت موسیٰ علیہ السلام توحید پر مبنی تھی: اَلَّا تَتَّخِذُوۡا مِنۡ دُوۡنِیۡ وَکِیۡلًا ۔

۲۔ بنی اسرائیل، نوح (ع) کی اولاد ہیں۔


آیات 2 - 3