سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیۡعُ الۡبَصِیۡرُ﴿۱﴾

۱۔ پاک ہے وہ جو ایک رات اپنے بندے کو مسجد الحرام سے اس مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے گرد و پیش میں ہم نے برکتیں رکھیں تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں، یقینا وہ خوب سننے والا، دیکھنے والا ہے۔

1۔ رسول کریم ﷺ کو معراج پر لے جانے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ اپنے حبیب کو اپنی نشانیاں اس طرح دکھانا چاہتا ہے کہ ایمان بالغیب کے ساتھ ایمان بالشہود کی منزل پر بھی فائز ہو جائیں۔ واضح رہے کہ شہود سے مراد سمعی و بصری ذرائع نہیں ہیں جن میں غلطی کا کوئی امکان رہتا ہو، بلکہ اس شہود سے مراد عقل و شعور، ضمیر، وجدان اور اپنے پورے وجود کے ساتھ مشاہدہ کرنا ہے جسے قرآن دل کا مشاہدہ قرار دیتا ہے: مَا کَذَبَ الۡفُؤَادُ مَا رَاٰی جو کچھ مشاہدہ میں آیا دل نے اسے رد نہیں کیا۔ بالفاظ دیگر اس مشاہدے میں قلب کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور نگاہ رسول ﷺ کی ایک جامع تعریف اس آیت میں آگئی: مَا زَاغَ الۡبَصَرُ وَ مَا طَغٰی نگاہ رسول ﷺ نہ تو (حقائق سے) ایک طرف ہٹی، نہ ہی اس نے حد سے تجاوز کیا۔یعنی اس نگاہ نے حقائق کا کماحقہ مشاہدہ کیا۔ اس بیان کے بعد اس اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں رہتی کہ معراج عالم خواب میں تھی یا بیداری میں۔ کیونکہ رسول اکرم ﷺ کو جس بیداری کی حالت میں آسمانی ملکوت کی سیر کرائی گئی، ایسی بیداری تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سوا کسی نبی مرسل کو نصیب نہیں ہوئی۔

نیز ہمیں غیر زمانی حقائق کا ادراک کرنے کے لیے اپنے محدود زمانی و مکانی دائرے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ چنانچہ الکسس کارل کے مطابق افراد کو زمان و مکان میں محدود سمجھنا ایک مفروضہ ہے اور آئین سٹائن کے نظریہ اضافت کے مطابق زمان و مکان ہر جگہ یکساں نہیں۔ کہتے ہیں کہ اگر کوئی چیز نور کی رفتار سے سفر کرے تو اس کے دس منٹ ہمارے سینکڑوں سالوں کے برابر ہوں گے۔ لہٰذا معراج کے بارے میں ہمارے نظام شمسی میں موجود رکاوٹوں کا ذکر اور ان کا جواب ایک غیر ضروری بحث ہے۔