آیت 5
 

فَاِذَا جَآءَ وَعۡدُ اُوۡلٰىہُمَا بَعَثۡنَا عَلَیۡکُمۡ عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ فَجَاسُوۡا خِلٰلَ الدِّیَارِ ؕ وَ کَانَ وَعۡدًا مَّفۡعُوۡلًا﴿۵﴾

۵۔ پس جب دونوں میں سے پہلے وعدے کا وقت آیا تو ہم نے اپنے زبردست طاقتور جنگجو بندوں کو تم پر مسلط کیا پھر وہ گھر گھر گھس گئے اور یہ پورا ہونے والا وعدہ تھا۔

تشریح کلمات

الجوس:

( ج و س ) آیہ کریمہ میں جاسوا کے معنی ہیں کہ وہ تمہارے گھروں کے اندر گھس گئے اور ان میں خوب پھرے۔ قتل و غارت سے کنایہ ہے۔

تفسیر آیات

جب پہلے فساد کا وقت آیا اور بنی اسرائیل نے فساد اور سرکشی میں انتہا کر دی تو اللہ تعالیٰ نے از روئے انتقام ان پر کچھ ایسے جنگجوؤں کو مسلط کر دیا جن سے ان کے گھروں کی چار دیواری کا تقدس تک پامال ہو گیا۔

اس جگہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا: ہم نے اپنے طاقتور جنگجو بندوں کو تم پر مسلط کیا۔ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انتقام لینے والے افراد مؤمن ہوں کیونکہ اگر یہ عمل، اللہ کی طرف سے مسلط کرنا تشریعی ہو تو ایمان وغیرہ شرط ہے لیکن یہ عمل تکوینی، قدرتی مکافات عمل ہے جس کے لیے ایمان وغیرہ شرط نہیں ہے۔ چنانچہ شیاطین کے بارے میں فرمایا:

اَلَمۡ تَرَ اَنَّـاۤ اَرۡسَلۡنَا الشَّیٰطِیۡنَ عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ تَؤُزُّہُمۡ اَزًّا ﴿ۙ﴾ (۱۹ مریم: ۸۳)

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ ہم نے شیاطین کو کفار پر مسلط کر رکھا ہے جو انہیں اکساتے رہتے ہیں ؟

یہاں شیطانوں کے بارے میں اَرۡسَلۡنَا کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہاں بھی لفظ اَمَرۡنَا برے لوگوں کے لیے استعمال ہوا ہے:

وَ اِذَاۤ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نُّہۡلِکَ قَرۡیَۃً اَمَرۡنَا مُتۡرَفِیۡہَا ۔۔۔۔ (۱۷ بنی اسرائیل: ۱۶)

اور جب ہم کسی بستی کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کے عیش پرستوں کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس بستی میں فسق و فجور کا ارتکاب کرتے ہیں۔۔۔۔

الفاظ عِبَادًا لَّنَاۤ، یٰعِبَادِیَ قرآن میں کافر و مومن دونوں کے لیے استعمال ہوا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ اسلام نے فرمایا:

اِنۡ تُعَذِّبۡہُمۡ فَاِنَّہُمۡ عِبَادُکَ ۔۔۔۔ (۵ مائدہ: ۱۱۸)

اگر تو انہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں۔

کیونکہ کافر بھی تو اللہ کے بندے ہیں لیکن وہ بندگی کا حق ادا نہیں کرتے۔

یہ طاقتور جنگجو کون لوگ تھے؟ اس میں مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک قرین واقع معلوم ہوتا ہے کہ ان سے مراد بابل کے بادشاہ بخت نصر کا حملہ ہی ہو سکتا ہے جس نے یروشلم اور ہیکل سلیمانی تک زمین کو برابر کر دیا تھا۔

اہم نکات

۱۔ اللہ کی مشیت قدرتی عوامل کے ذریعے عمل میں آتی ہے: عِبَادًا لَّنَاۤ اُولِیۡ بَاۡسٍ شَدِیۡدٍ ۔۔۔۔


آیت 5