یٰۤاَیُّہَا الرَّسُوۡلُ لَا یَحۡزُنۡکَ الَّذِیۡنَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡکُفۡرِ مِنَ الَّذِیۡنَ قَالُوۡۤا اٰمَنَّا بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ لَمۡ تُؤۡمِنۡ قُلُوۡبُہُمۡ ۚۛ وَ مِنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا ۚۛ سَمّٰعُوۡنَ لِلۡکَذِبِ سَمّٰعُوۡنَ لِقَوۡمٍ اٰخَرِیۡنَ ۙ لَمۡ یَاۡتُوۡکَ ؕ یُحَرِّفُوۡنَ الۡکَلِمَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَوَاضِعِہٖ ۚ یَقُوۡلُوۡنَ اِنۡ اُوۡتِیۡتُمۡ ہٰذَا فَخُذُوۡہُ وَ اِنۡ لَّمۡ تُؤۡتَوۡہُ فَاحۡذَرُوۡا ؕ وَ مَنۡ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتۡنَتَہٗ فَلَنۡ تَمۡلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا ؕ اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ لَمۡ یُرِدِ اللّٰہُ اَنۡ یُّطَہِّرَ قُلُوۡبَہُمۡ ؕ لَہُمۡ فِی الدُّنۡیَا خِزۡیٌ ۚۖ وَّ لَہُمۡ فِی الۡاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیۡمٌ﴿۴۱﴾

۴۱۔ اے رسول!اس بات سے آپ رنجیدہ خاطر نہ ہوں کہ کچھ لوگ کفر اختیار کرنے میں بڑی تیزی دکھاتے ہیں وہ خواہ ان لوگوں میں سے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں جب کہ ان کے دل ایمان نہیں لائے اور خواہ ان لوگوں میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ہیں، یہ لوگ جھوٹ (کی نسبت آپ کی طرف دینے) کے لیے جاسوسی کرتے ہیں اور ایسے لوگوں (کو گمراہ کرنے) کے لیے جاسوسی کرتے ہیں جو ابھی آپ کے دیدار کے لیے نہیں آئے، وہ کلام کو صحیح معنوں سے پھیرتے ہیں اور کہتے ہیں: اگر تمہیں یہ حکم ملا تو مانو ، نہیں ملا تو بچے رہو،جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تو اسے بچانے کے لیے اللہ نے آپ کو کوئی اختیار نہیں دیا، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا ہی نہیں چاہا، ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔

41۔ 42۔ مدینہ کے مضافات میں یہودیوں کا ایک طاقتور قبیلہ بنو نضیر اور ایک کمزور قبیلہ بنو قریظہ آباد تھے۔ بنو نضیر نے بنو قریظہ کو ایک ذلت آمیز معاہدے پر مجبور کر دیا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ اگر بنو نضیر کا کوئی آدمی بنو قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کر دے تو بنو قریظہ کو قصاص کا حق نہ ہو گا بلکہ ایک خفیف سی دیت دینی ہو گی۔ جبکہ بنو قریظہ کا کوئی آدمی بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کر دے تو قصاص کے ساتھ دیت بھی دگنی ہو گی، رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلمکی ہجرت کے بعد بنو قریظہ کے ایک شخص کے ہاتھوں بنو نضیر کا ایک شخص قتل ہو گیا، بنو قریظہ دگنی دیت دینے کے لیے تیار نہ ہوئے۔ جنگ چھڑنے والی تھی، مگر ان کے بزرگوں کے مشورے سے یہ طے پایا کہ اس مسئلے کو رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ بنو نضیر نے اس فیصلے کو قبول تو کر لیا مگر انہوں نے جاسوسی کے لیے کچھ یہودیوں کو مدینہ بھیجا کہ رسول اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کیا مؤقف ہے۔ دوسرا واقعہ زنا کا پیش آیا۔ مجرم کا تعلق بڑے خاندان سے تھا۔ اس بنا پر یہودی علماء نے سنگساری کی سزا کوڑوں میں بدل دی۔ چنانچہ یہودیوں کا ایک وفد حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں آیا۔ زناکر نے والے شادی شدہ تھے اس لیے توریت کے مطابق حضور صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سنگساری کا حکم دیا جس سے وہ بوکھلا گئے۔ سب سے بڑے یہودی عالم (ابن صوریا) سے پوچھا گیا تو اس نے گواہی دی کہ توریت میں یہی سزا ہے لیکن ہم نے بڑوں کے لحاظ اور زنا کی کثرت کی وجہ سے یہ حکم کوڑوں میں بدل دیا تھا۔

اسلامی حکومت میں یہودی اقلیت اپنے مقدمات کے فیصلے میں اپنی عدالت اور اپنے ججوں کی طرف رجوع کرنے اور فیصلہ لینے میں آزاد تھی وہ اسلامی عدالت کی طرف رجوع کرنے کے لیے مجبور نہ تھے۔ وہ صرف اپنے قانون سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے کبھی اسلامی عدالت کی طرف رجوع کرتے تھے۔

سَمّٰعُوۡنَ لِلۡکَذِبِ اَکّٰلُوۡنَ لِلسُّحۡتِ ؕ فَاِنۡ جَآءُوۡکَ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ اَوۡ اَعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ ۚ وَ اِنۡ تُعۡرِضۡ عَنۡہُمۡ فَلَنۡ یَّضُرُّوۡکَ شَیۡئًا ؕ وَ اِنۡ حَکَمۡتَ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِالۡقِسۡطِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُقۡسِطِیۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔یہ لوگ جھوٹ (کی نسبت آپ کی طرف دینے )کے لیے جاسوسی کرنے والے، حرام مال خوب کھانے والے ہیں، اگر یہ لوگ آپ کے پاس (کوئی مقدمہ لے کر) آئیں تو ان میں فیصلہ کریں یا ٹال دیں (آپ کی مرضی) اور اگر آپ نے انہیں ٹال دیا تو یہ لوگ آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور اگر آپ فیصلہ کرنا چاہیں تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کر دیں، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

وَ کَیۡفَ یُحَکِّمُوۡنَکَ وَ عِنۡدَہُمُ التَّوۡرٰىۃُ فِیۡہَا حُکۡمُ اللّٰہِ ثُمَّ یَتَوَلَّوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ ذٰلِکَ ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِکَ بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿٪۴۳﴾

۴۳۔ اور یہ لوگ آپ کو منصف کیسے بنائیں گے جب کہ ان کے پاس توریت موجود ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہونے کے باوجود یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ ایمان ہی نہیں رکھتے۔

43۔ فِیۡہَا حُکۡمُ اللّٰہِ : توریت میں حکم خدا موجود ہے۔ اس جملے سے معلوم ہوا جہاں توریت میں تحریف و تبدل ہوا ہے وہاں یہ بھی قبول ہے کہ توریت میں بعض احکام خدا باقی ہیں۔

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَا التَّوۡرٰىۃَ فِیۡہَا ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۚ یَحۡکُمُ بِہَا النَّبِیُّوۡنَ الَّذِیۡنَ اَسۡلَمُوۡا لِلَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحۡبَارُ بِمَا اسۡتُحۡفِظُوۡا مِنۡ کِتٰبِ اللّٰہِ وَ کَانُوۡا عَلَیۡہِ شُہَدَآءَ ۚ فَلَا تَخۡشَوُا النَّاسَ وَ اخۡشَوۡنِ وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ ہم نے توریت نازل کی جس میں ہدایت اور نور تھا، اطاعت گزار انبیاء اس کے مطابق یہودیوں کے فیصلے کرتے تھے اور علماء اور فقہاء بھی فیصلے کرتے تھے جنہیں اللہ نے کتاب کی حفاظت کا ذمہ دار بنایا تھا اور وہ اس پر گواہ تھے، لہٰذا تم لوگوں سے خوفزدہ نہ ہونا بلکہ مجھ سے خوف رکھنا اور میری آیات کو تھوڑی سی قیمت پر نہ بیچنا اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قوانین کے مطابق فیصلے نہ کریں پس وہ کافر ہیں۔

44۔ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ علماء اور فقہاء بھی انبیاء علیہم السلام کے ساتھ کتاب اللہ اور اس کے احکام کے امین اور محافظ ہوتے ہیں اور یَحۡکُمۡ بِمَاۤ سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ علماء و فقہاء کو کتاب اللہ کی حفاظت اور علم و فقاہت کی بنیاد پر حکومت کا حق حاصل ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے: جن کو حکومت کا حق حاصل ہے وہ آئمہ اور علماء ہیں۔ آپ نے فرمایا: ربانی امام کی طرف اور احبار علماء کی طرف اشارہ ہے (تفسیر عیاشی 1:322)

وَ کَتَبۡنَا عَلَیۡہِمۡ فِیۡہَاۤ اَنَّ النَّفۡسَ بِالنَّفۡسِ ۙ وَ الۡعَیۡنَ بِالۡعَیۡنِ وَ الۡاَنۡفَ بِالۡاَنۡفِ وَ الۡاُذُنَ بِالۡاُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ ۙ وَ الۡجُرُوۡحَ قِصَاصٌ ؕ فَمَنۡ تَصَدَّقَ بِہٖ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوۡنَ﴿۴۵﴾

۴۵۔ اور ہم نے توریت میں ان پر (یہ قانون) لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت ہیں اور زخموں کا بدلہ (ان کے برابر) لیا جائے، پھر جو قصاص کو معاف کر دے تو یہ اس کے لیے (گناہوں کا) کفارہ شمار ہو گا اور جو اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق فیصلے نہ کریں پس وہ ظالم ہیں۔

45۔ آج کی رائج توریت میں بھی قصاص کے یہی احکام موجود ہیں جو قرآن نقل کر رہا ہے۔ ملاحظہ ہو خروج: 21۔23۔25 میں یہ عبارت: ”اگر وہ اس صدمے سے ہلاک ہو جائے، جان کے بدلے میں جان لے اور آنکھ کے بدلے میں آنکھ، دانت کے بدلے میں دانت، ہاتھ کے بدلے میں ہاتھ، پاؤں کے بدلے میں پاؤں، جلانے کے بدلے میں جلانا، زخم کے بدلے میں زخم اور چوٹ کے بدلے میں چوٹ“-

وَ قَفَّیۡنَا عَلٰۤی اٰثَارِہِمۡ بِعِیۡسَی ابۡنِ مَرۡیَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ ۪ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡاِنۡجِیۡلَ فِیۡہِ ہُدًی وَّ نُوۡرٌ ۙ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ التَّوۡرٰىۃِ وَ ہُدًی وَّ مَوۡعِظَۃً لِّلۡمُتَّقِیۡنَ ﴿ؕ۴۶﴾

۴۶۔ اور ان کے بعد ہم نے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا جو اپنے سے پہلے کی کتاب توریت کی تصدیق کرتے ہیں اور ہم نے انہیں انجیل عطا کی جس میں ہدایت اور نور تھا اور جو اپنے سے پہلے والی کتاب توریت کی تصدیق کرتی تھی اور اہل تقویٰ کے لیے ہدایت اور نصیحت تھی۔

وَ لۡیَحۡکُمۡ اَہۡلُ الۡاِنۡجِیۡلِ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ ؕ وَ مَنۡ لَّمۡ یَحۡکُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔اور اہل انجیل کو چاہیے کہ وہ ان احکام کے مطابق فیصلے کریں جو اللہ نے انجیل میں نازل کیے ہیں اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلے نہ کریں وہ فاسق ہیں۔

47۔ اللہ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والوں کو آیت 44 میں کافر، آیت 45 میں ظالم اور آیت 47 میں فاسق کہا گیا ہے۔

خلاف تنزیل فیصلہ کرنے کی وجہ اگر انکار ہے تو یہ کفر ہے اور اگر عملی انحراف ہے تو فسق ہے۔ دونوں صورتوں میں ظلم بھی صادق آتا ہے۔ اہل کتاب جب اپنی کتابوں کے خلاف فیصلے کرتے ہیں تو ان میں انکار بھی ہے، انحراف بھی اور ظلم بھی، لہٰذا تینوں تعبیریں ان پر صادق آتی ہیں۔ واضح رہے کہ خلاف قرآن فیصلہ کرنے والی عدالتوں پر بھی یہی حکم صادق آتا ہے۔

وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ مُہَیۡمِنًا عَلَیۡہِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ عَمَّا جَآءَکَ مِنَ الۡحَقِّ ؕ لِکُلٍّ جَعَلۡنَا مِنۡکُمۡ شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا ؕ وَ لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ لَجَعَلَکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ لٰکِنۡ لِّیَبۡلُوَکُمۡ فِیۡ مَاۤ اٰتٰىکُمۡ فَاسۡتَبِقُوا الۡخَیۡرٰتِ ؕ اِلَی اللّٰہِ مَرۡجِعُکُمۡ جَمِیۡعًا فَیُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿ۙ۴۸﴾

۴۸۔ اور (اے رسول) ہم نے آپ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جو حق پر مبنی ہے اور اپنے سے پہلے والی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان پر نگران و حاکم ہے، لہٰذا آپ اللہ کے نازل کردہ حکم کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کریں اور جو حق آپ کے پاس آیا ہے اسے چھوڑ کر آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں، ہم نے تم میں سے ہر ایک (امت) کے لیے ایک دستور اور طرز عمل اختیار کیا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تم سب کو ایک امت بنا دیتا لیکن اللہ نے تمہیں جو حکم دیا ہے اس میں تمہیں آزمانا چاہتا ہے، لہٰذا نیک کاموں میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو، تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے پھر وہ تمہیں ان حقائق کی خبر دے گا جن میں تم اختلاف کرتے تھے ۔

48۔ مُہَیۡمِنًا : صاحب تسلط حاکم اور قیوم۔ قرآن مجید کو سابقہ ادیان کی کتب پر بالادستی حاصل ہے۔ یعنی توریت و انجیل اگرچہ اپنی جگہ مبنی برحق ہیں لیکن قرآن ان پر حاکم ہے۔ اس بالادستی ہیمنت اور حاکمیت کی بنا پر سابقہ کتابیں عارضی اور منسوخ ہیں، جبکہ قرآن ناسخ، دائمی اور ابدی ہے۔

شِرۡعَۃً وَّ مِنۡہَاجًا : انسانی معاشرے نے غار کی زندگی سے لے کر ایٹمی دور تک مختلف مراحل طے کیے۔ ہر مرحلہ کے لیے اس معاشرے کے تقاضوں کے مطابق ایک دستور حیات دیا گیا۔ جب انسان سن بلوغت کو پہنچ گیا تو اسے ایک مکمل اور جامع نظام حیات اور دائمی دستور زندگی دیا گیا۔

لَجَعَلَکُمۡ اُمَّۃً : اگر اللہ چاہتا تو سب کو ایک ہی امت قرار دے کر ایک نظام حیات عنایت فرماتا، مگر انسان چونکہ ارتقا پذیر ہے اور ارتقاء میں مختلف مراحل طے ہوتے ہیں، لہٰذا ہر مرحلے کے لیے ایک جدا دستور، ہر کلاس کے لیے ایک الگ پرچہ دینا ضروری قرار پایا۔ رسول خاتم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلمکی طرف سے قائم کردہ سنت سے ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق جزئی احکام کے استنباط و استخراج کے لیے اجتہاد کا سلسلہ جاری رہنا اس الٰہی نظام کے مزاج کے عین مطابق ہے۔

یہاں صاحب تفسیر المنار بجا طور پر اجتہاد کا دروازہ بند سمجھنے والوں کو حجت خدا مفلوج کرنے اور اس شریعت کی ممتاز حیثیت کو مجروح کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں۔

وَ اَنِ احۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ وَ احۡذَرۡہُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنُوۡکَ عَنۡۢ بَعۡضِ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکَ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاعۡلَمۡ اَنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّصِیۡبَہُمۡ بِبَعۡضِ ذُنُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔اور جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق ان میں فیصلے کریں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور ان سے ہوشیار رہیں، کہیں یہ لوگ اللہ کی طرف سے آپ پر نازل شدہ کسی دستور کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈالیں، اگر یہ منہ پھیر لیں تو جان لیجیے کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کے سبب انہیں مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے اور لوگوں میں سے اکثر یقینا فاسق ہیں۔

49۔ بعض یہودی علماء نے رسول اللہ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی تعلیمات کی خلاف ورزی پر آمادہ کرنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا،اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔

اَفَحُکۡمَ الۡجَاہِلِیَّۃِ یَبۡغُوۡنَ ؕ وَ مَنۡ اَحۡسَنُ مِنَ اللّٰہِ حُکۡمًا لِّقَوۡمٍ یُّوۡقِنُوۡنَ﴿٪۵۰﴾

۵۰۔کیا یہ لوگ جاہلیت کے دستور کے خواہاں ہیں؟ اہل یقین کے لیے اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کون ہے؟

50۔ اس آیہ شریفہ کو سابقہ آیت کے ساتھ مربوط کر کے مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ خواہشات نفسانی کی پیروی کرنا جاہلیت ہے۔ ہمارے معاصر نظامہائے حیات کے وضع کرنے والے اور جدید تقاضوں کے بہانے سے حکم الہی سے انحراف کرنے والے، جاہلیت کی اس قرآنی تعریف میں صف اول میں نظر آتے ہیں۔ مغرب کی جدید جاہلیت نے تو قانون وضع کرتے ہوئے خواہشات پرستی میں قوم جاہلیت کو بھی سرخرو کر دیا۔