آیت 49
 

وَ اَنِ احۡکُمۡ بَیۡنَہُمۡ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ وَ احۡذَرۡہُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنُوۡکَ عَنۡۢ بَعۡضِ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ اِلَیۡکَ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاعۡلَمۡ اَنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ اَنۡ یُّصِیۡبَہُمۡ بِبَعۡضِ ذُنُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ لَفٰسِقُوۡنَ﴿۴۹﴾

۴۹۔اور جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے اس کے مطابق ان میں فیصلے کریں اور آپ ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں اور ان سے ہوشیار رہیں، کہیں یہ لوگ اللہ کی طرف سے آپ پر نازل شدہ کسی دستور کے بارے میں آپ کو فتنے میں نہ ڈالیں، اگر یہ منہ پھیر لیں تو جان لیجیے کہ اللہ نے ان کے بعض گناہوں کے سبب انہیں مصیبت میں مبتلا کرنے کا ارادہ کر رکھا ہے اور لوگوں میں سے اکثر یقینا فاسق ہیں۔

ان نزول

ابن عباس سے منقول ہے کہ رسول اللہ (ص) کو اپنی تعلیمات کی خلاف ورزی پر آمادہ کرنے کے لیے یہود کے بعض علماء نے ایک سازش کی ۔ چنانچہ انہوں نے حضور ؐسے کہا: ہمارے مابین ایک نزاع ہے۔ اگر آپ ؐہمارے حق میں فیصلہ کر دیں تو ہم آپ ؐپر ایمان لائیں گے اور ہمارے ایمان لانے پر دوسرے یہودی بھی آپؐ پر ایمان لائیں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ اَنِ احۡکُمۡ: اپنے فیصلوں میں یہودیوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ جو اللہ نے حکم نازل فرمایا ہے، اس کے مطابق فیصلے کریں۔

۲۔ وَ احۡذَرۡہُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنُوۡکَ: ان یہودیوں سے ہوشیار رہیں۔ کہیں یہ لوگ آپ کو کسی فتنے میں مبتلا کر کے حکم خدا سے منحرف نہ کریں۔ اس تعبیر کا مقصد یہ ہے کہ یہود کا مکر و فریب فاش ہو جائے اور یہود بھی اپنی سازش کی کامیابی سے مایوس ہو جائیں اور یہ بھی بیان کرنا بھی مقصود ہو سکتا ہے کہ احکام الٰہی کی حرمت چند افراد کے ایمان لانے سے زیادہ ہے تاکہ مسلمان احکام الٰہی میں مصلحتوں کا شکار نہ ہوں۔

۳۔ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا: اگر یہ ایمان نہیں لائیں گے تو اس ایمان نہ لانے کا نتیجہ خود یہ لوگ بھگتیں گے اور اپنے جرائم کی سزا کا وہ سامنا کریں گے۔

حضرت علامہ طباطبائی قدس سرہ وَ لَا تَتَّبِعۡ اَہۡوَآءَہُمۡ پر ممکنہ اعتراض کا یہ جواب دیتے ہیں:

عصمت کی وجہ سے اختیار سلب نہیں ہوتا اور نہ تکلیف ساقط ہوتی ہے بلکہ یہ علم و آگہی کی طرح ہے کہ کسی بات پر علم و یقین حاصل ہونے سے انسانی طاقت اور اعضا کی قوت محرکہ تو مفلوج نہیں ہوتی کہ اس سے فعل و ترک کا اختیار سلب ہو جائے۔ مثلاً ایک کھانے میں زہر موجود ہونے پر علم و یقین حاصل ہوتا ہے تو انسان اس کو کھانے کی غلطی کا ارتکاب نہیں کرتا، تاہم اس کے اعضا و جوارح میں اس زہریلی غذا کو کھانے کی طاقت موجود ہوتی ہے۔ ہاتھ، منہ، زبان اور دانتوں میں کھانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور وہ کھا سکتے ہیں اور ترک بھی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اس زہریلی غذا کا ترک کرنا اختیاری ہے، اگرچہ اس علم کے باوجود زہر کھانے کا امکان نہیں رہتا۔ (المیزان)

اہم نکات

۱۔رسول ؐسے خطاب کے ضمن میں امت کو یہود کی گہری سازشوں سے آگاہ کرنا مقصود ہے کہ وہ مقام عصمت پر فائز خود رسول کریمؐ کو اپنی تعلیمات سے منحرف کرنے کی سازش کرتے ہیں تو ضعیف مفادپرست، علی الخصوص اقتدار پرست افراد کے انحراف کے لیے ان کی سازش نہایت گھناؤنی ہو گی۔

۲۔ اگر اللہ کسی قوم یا فرد کو کسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تو خود ان کے گناہوں کی پاداش میں کرتا ہے۔ اللہ پہل نہیں کرتا۔


آیت 49