مذہبی غیرت کا فقدان


وَ قَدۡ نَزَّلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الۡکِتٰبِ اَنۡ اِذَا سَمِعۡتُمۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکۡفَرُ بِہَا وَ یُسۡتَہۡزَاُ بِہَا فَلَا تَقۡعُدُوۡا مَعَہُمۡ حَتّٰی یَخُوۡضُوۡا فِیۡ حَدِیۡثٍ غَیۡرِہٖۤ ۫ۖ اِنَّکُمۡ اِذًا مِّثۡلُہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الۡمُنٰفِقِیۡنَ وَ الۡکٰفِرِیۡنَ فِیۡ جَہَنَّمَ جَمِیۡعَۨا﴿۱۴۰﴾ۙ

۱۴۰۔اور بتحقیق اللہ نے(پہلے) اس کتاب میں تم پر یہ حکم نازل فرمایا کہ جہاں کہیں تم سن رہے ہو کہ اللہ کی آیات کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو تم ان کے ساتھ نہ بیٹھا کرو جب تک وہ کسی دوسری گفتگو میں نہ لگ جائیں ورنہ تم بھی انہی کی طرح کے ہو جاؤ گے، بے شک اللہ تمام منافقین اور کافرین کو جہنم میں یکجا کرنے والا ہے۔

140۔ اگر کسی محفل میں کسی کے دین و عقیدے کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اور اس میں اپنے مذہب کے بارے میں حمیت و غیرت نہ ہو تو یہ اس بات کی علامت سمجھی جاتی ہے کہ اس کا دل ایمان سے خالی ہے۔ مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے یہود اسلام کا مذاق اڑاتے تھے اور مکہ کے ضعیف الایمان اور مدینہ کے منافقین ایسی محفلوں میں بیٹھ کر ایسی باتوں کا سننا گوارا کرتے تھے۔ ہمارے زمانے میں ہر زمانے کی طرح یہ اصطلاح بدل گئی ہے، چنانچہ اگر کسی کے دل میں اپنے دین و مذہب کے بارے میں غیرت و حمیت نہیں ہے اور وہ ایسی محفلوں میں بیٹھ کر اپنے دین و مذہب کا مذاق اڑانا سن سکتا ہے تو اسے ”روشن خیال“ کہتے ہیں اور مذہبی غیرت و حمیت رکھنے والوں کو ”بنیاد پرست“ کہتے ہیں۔