آیات 131 - 132
 

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ لَقَدۡ وَصَّیۡنَا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ وَ اِیَّاکُمۡ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ وَ اِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَنِیًّا حَمِیۡدًا﴿۱۳۱﴾

۱۳۱۔اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب اللہ کی ملکیت ہے، بتحقیق ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب کو نصیحت کی ہے اور تمہیں بھی یہی نصیحت ہے کہ تقویٰ اختیار کرو اور اگر کفر اختیار کرو گے تو آسمانوں اور زمین کی ہر چیز اس کے قبضۂ قدرت میں ہے اور اللہ بڑا بے نیاز، قابل ستائش ہے۔

وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا﴿۱۳۲﴾

۱۳۲۔اور اللہ ہی ان سب چیزوں کا مالک ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہیں اور کفالت کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ: جس ذات کے قبضہ قدرت میں تمام آسمان اور زمین ہوں، اس کے لیے ان دونوں، میاں بیوی کی جدائی کے بعد ان پر مہربانی کرنے اور ان کو اچھی زندگی دینے میں کوئی شیٔ حائل نہیں ہو سکتی۔

۲۔ وَ لَقَدۡ وَصَّیۡنَا: ہم نے تم سے پہلے اہل کتاب یعنی یہود و نصاری کو اور خود تم کو بھی تقویٰ کی سفارش کی ہے کہ تقویٰ یعنی گناہ سے بچنا ہر دور، ہر زمانے کے لوگوں کے لیے ضروری ہے۔ چنانچہ ہر ضرر رساں چیز سے اپنے آپ کو بچانا ایک فطری اور عقلی حکم بھی ہے۔ نہ بچنے والا کم عقل سمجھا جائے گا۔ حدیث میں آیا ہے: المؤمن کیس ۔ (الدعوات ص ۳۹) مومن ہوشیار ہوتا ہے۔ ضرر رساں چیزوں سے اجتناب کرتا ہے۔

۳۔ وَ اِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ لِلّٰہِ: اگر تم نے اپنے آپ کو نہیں بچایا تو اللہ کو اس سے ضرر نہیں پہنچتا۔ اللہ کو تمہارے تقویٰ کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ خود تمہارے مفاد میں ہے۔ فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، سب اللہ کی قبضہ قدرت میں ہے۔ تم تقویٰ کرو، نہ کرو، اللہ کی حکومت سے فرار نہیں کر سکتے۔ البتہ تقویٰ کے ذریعے اللہ کی رحمت کے لیے اہل بن سکتے ہیں۔ وَ کَانَ اللّٰہُ غَنِیًّا حَمِیۡدًا اللہ تمہارے تقویٰ سے بے نیاز تمہاری تحمید و تمجید کے بغیر بھی حَمِيْدًا لائق ستائش ہے۔

۴۔ فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ: جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے، وہ اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے، جس کے تحت تم کو محفوظ رکھا گیا ہے۔ اللہ کی ملکیت میں ہونے کی وجہ سے تم روئے زمین پر آباد ہو۔ اِنۡ یَّشَاۡ یُذۡہِبۡکُمۡ اگر اللہ چاہے تو تم سب کو فنا کر کے تمہاری جگہ دوسروں کو لے آئے۔ ان آیات میں وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ کو تین مرتبہ تکرار فرمایا: اس تکرار کی یہ توجیہ کی گئی ہے کہ پہلی بار اللہ کی اطاعت اور اللہ کے فیصلوں کو تسلیم کرنے کی ضرورت کے بیان کے لیے ہے۔ بعض فرماتے ہیں، اللہ کی مملکت کی وسعت کو بیان کرنے کے لیے ہے۔ دوسری مرتبہ اپنی مخلوقات سے بے نیازی کے اظہار کے لیے، تیسری بار اگلی آیت کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ اگر اللہ چاہے تو تم کو فنا کر کے دوسری مخلوق کو پیدا کر سکتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ایمان باللہ کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ کی ہمہ جہت ملکیت پر ایمان رکھے۔

۲۔ تقویٰ تمام ادیان کی تعلیمات کا بنیادی عنصر ہے۔


آیات 131 - 132