آیات 138 - 139
 

بَشِّرِ الۡمُنٰفِقِیۡنَ بِاَنَّ لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمَۨا﴿۱۳۸﴾ۙ

۱۳۸۔ (اے رسول) منافقوں کو دردناک عذاب کا مژدہ سنا دو۔

الَّذِیۡنَ یَتَّخِذُوۡنَ الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ اَیَبۡتَغُوۡنَ عِنۡدَہُمُ الۡعِزَّۃَ فَاِنَّ الۡعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا﴿۱۳۹﴾ؕ

۱۳۹۔ جو ایمان والوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا حامی بناتے ہیں، کیا یہ لوگ ان سے عزت کی توقع رکھتے ہیں؟ بے شک ساری عزت تو خدا کی ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ بَشِّرِ الۡمُنٰفِقِیۡنَ: منافقین کو دردناک عذاب کی نوید سنا دو۔ منافق کسی عزت و احترام کے قابل نہیں ہیں۔ اس لیے عذاب کی خبر کو خوش خبری کہکر ان کی ایک قسم کی اہانت کی ہے۔

اس آیہ شریفہ میں منافقین کی ایک اہم علامت بیان کی گئی ہے۔ وہ یہ کہ منافقین اپنا قلبی لگاؤ مومنین کی بجائے کفار سے رکھتے ہیں۔ ایسا وہ اس لیے کرتے ہیں کہ ان کے وہم و خیال کے مطابق عزت و تمکنت کفار کے ساتھ دوستی رکھنے کی صورت میں مل سکتی ہے۔

۲۔ فَاِنَّ الۡعِزَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا: آیہ شریفہ منافقین کے اس زعم باطل کو مسترد کرتے ہوئے واضح کرتی ہے: ’’عزت تو ساری اللہ کی ہے۔‘‘ اگر عزت درکارہے تو اس ذات کی طرف آؤ جو خود صاحب عزت ہے اور وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ ( ۳ آل عمران : ۲۶) تو جسے چاہے عزت دیتا ہے۔

مفہوم عزت: عزت ایک ناقابل تسخیرحالت کو کہتے ہیں۔ صاحب عزت مغلوب ہونے سے محفوظ رہتا ہے اور کائنات میں خدا ہی کی ذات مغلوب ہونے سے محفوظ ہے یا وہ جسے وہ مغلوب ہونے سے تحفظ دے:

وَ لِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَ لِرَسُوۡلِہٖ وَ لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔۔۔ (۶۳ منافقون : ۸)

اور عزت تو اللہ اس کے رسول اور مؤمنین کے لیے ہے۔

اہم نکات

۱۔ یہ آیہ ان لوگوں کے دعوائے ایمان و اسلام کے لیے ایک کھلی دعوت ہے جو عزت و تمکنت کے حصول کے لیے نہ صرف کفار سے دوستی کرتے ہیں بلکہ ان کے دروازوں پر عزت اور مقام کی بھیک مانگتے ہیں۔

۲۔ قرآن کفار کو دوست بنانے کو ایمان کے منافی قرار دیتا ہے، جب کہ دوستی میں برابری کا تصور ہوتا ہے، لیکن یہ لوگ کفار کا غلام بننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے ۔


آیات 138 - 139