یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَ لَوۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَوِ الۡوَالِدَیۡنِ وَ الۡاَقۡرَبِیۡنَ ۚ اِنۡ یَّکُنۡ غَنِیًّا اَوۡ فَقِیۡرًا فَاللّٰہُ اَوۡلٰی بِہِمَا ۟ فَلَا تَتَّبِعُوا الۡہَوٰۤی اَنۡ تَعۡدِلُوۡا ۚ وَ اِنۡ تَلۡوٗۤا اَوۡ تُعۡرِضُوۡا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا﴿۱۳۵﴾

۱۳۵۔ اے ایمان والو! انصاف کے سچے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو اگرچہ تمہاری ذات یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیرخواہ ہے، لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو اور اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا(گواہی دینے سے) پہلوتہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے یقینا خوب باخبر ہے۔

135۔ عدل کا انفرادی حکم مختلف آیات میں آیا ہے لیکن اس آیت میں عدل اجتماعی کا حکم ہے کہ عدل و انصاف کے قوام یعنی سچے داعی بن جائیں۔ مومن کا فریضہ فقط یہ نہیں کہ خود عدل و انصاف کرے اور معاشرے میں موجود ظلم و زیادتی سے لاتعلق ہو جائے، بلکہ مؤمنین کی ذمے داری ہے کہ معاشرے میں بھی عدل و انصاف قائم کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: العدل سائس عام ۔ (روضۃ الواعظین 2:416) عدل ایک جامع نظام ہے۔ عدل اجتماعی کی اہمیت کے بارے میں منقول ہے: وَاِنَّ قُرَّۃِ عَیْنِ الْوُلَاۃِ اسْتِقَامَۃُ الْعَدْلِ فِی الْبِلَادِ ۔ (مستدرک الوسائل 13:164) یعنی حکمرانوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ملک میں عدل و انصاف کا استحکام ہے۔

آیہ شریفہ میں یہ نکات قابل توجہ ہیں: ٭عدل و انصاف کا نظام قائم کرو۔٭ گواہی اللہ ہی کے لیے دیا کرو۔ ٭اپنی ذات یا قریبی رشتہ داروں کے خلاف ہو تو بھی سچی گواہی دو۔٭ دولت مندی اور فقیری کا لحاظ نہ کرو۔ کیونکہ عدل و انصاف امیر و غریب دونوں کے مفاد میں ہے۔