وَ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمۡ وَ لَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ ۪ وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۫ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوۡنِ﴿۴۱﴾

۴۱۔اور میری نازل کردہ (اس کتاب) پر ایمان لاؤ جو تمہارے پاس موجود کتاب کی تصدیق کرنے والی ہے اور سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر مت بنو اور میری آیات کو تھوڑی قیمت پر فروخت نہ کرو اور صرف میرے (غضب) سے بچنے کی فکر کرو۔

41۔ ”میری آیات کو حقیر اور نا پائیدار چیزوں کے عوض نہ بیچ“۔ یہ ایک عمومی دعوت فکر ہے کہ آیات الٰہی کے مقابلے میں دنیا کے تمام بڑے بڑے مفادات بھی حقیر ہیں۔

وَ لَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَ تَکۡتُمُوا الۡحَقَّ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ۔

وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور (اللہ کے سامنے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔

اَتَاۡمُرُوۡنَ النَّاسَ بِالۡبِرِّ وَ تَنۡسَوۡنَ اَنۡفُسَکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ تَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۴۴﴾

۴۴۔ کیا تم (دوسرے) لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھول جاتے ہو؟ حالانکہ تم کتاب (اللہ) کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟

44۔ خطاب اگرچہ بنی اسرائیل سے ہے لیکن حکم میں عمومیت پائی جاتی ہے۔ اس میں ان لوگوں کی سرزنش کی گئی ہے جو دوسروں کو نیکی کی دعوت دیتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے۔

وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔اور صبر اور نماز کا سہارا لو اور یہ (نماز) بارگراں ہے، مگر خشوع رکھنے والوں پر نہیں۔

45۔ سورہ معارج میں فرمایا: بیشک انسان بے ہمت پیدا ہوا ہے۔ جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو جزع و فزع کرتا ہے لیکن جب آسودگی ملتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے، سوائے نماز گزاروں کے جو اپنی نماز پر ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔ (19 تا 23)۔ معلوم ہوا کہ گردش روزگار نمازی کی مضبوط اور آہنی شخصیت پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ نماز انسان کو اس لامحدود طاقت سے وابستہ کر دیتی ہے جو تمام طاقتوں کی سرچشمہ ہے۔ انسان نمازی بن جانے کے بعد چٹان کی طرح مضبوط اور سمندر کی طرح بیکراں ہو جاتا ہے۔ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ یعنی ذوق بندگی نہ رکھنے والوں پر نماز بار گراں ہے، جب کہ خشوع کرنے والے نماز سے جو لذت اور سکون حاصل کرتے ہیں وہ کسی اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: کان علی اذا ھالہ امر فزع قام الی الصلوۃ ثم تلا ھذہ الایۃ حضرت علی علیہ السلام کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو نماز پڑھ لیتے تھے۔ پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

دوسری روایت میں امام علیہ السلام نے فرمایا: صبر سے مراد روزہ ہے۔ جب کسی آدمی پر برا وقت آجائے تو وہ روزہ رکھ لے۔

الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ وَ اَنَّہُمۡ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ﴿٪۴۶﴾ ۞ٙ

۴۶۔ جنہیں اس بات کا خیال رہتا ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا اور تمہیں عالمین پر فضیلت دی۔

وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا لَّا تَجۡزِیۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَیۡئًا وَّ لَا یُقۡبَلُ مِنۡہَا شَفَاعَۃٌ وَّ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡہَا عَدۡلٌ وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور اس دن سے بچنے کی فکر کرو جس دن نہ کوئی کسی کا بدلہ بن سکے گا اور نہ کسی کی سفارش قبول ہو گی اور نہ کسی سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔

وَ اِذۡ نَجَّیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآ ءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ﴿۴۹﴾

۴۹۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی، جو تمہیں بری طرح اذیت دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑا امتحان تھا۔

وَ اِذۡ فَرَقۡنَا بِکُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَیۡنٰکُمۡ وَ اَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو ) جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو شق کیا پھر تمہیں نجات دی اور تمہاری نگاہوں کے سامنے فرعونیوں کو غرق کر دیا۔

50۔ بنی اسرائیل کے لیے دریا کا شق ہو جانا اگرچہ معجزات انبیاء میں کوئی انوکھا واقعہ نہیں، تاہم بحیرہ احمر کے مد و جزر سے اس کی تاویل کرنا بھی درست نہیں۔ کیونکہ معجزات معمول کے علل و اسباب اور طبیعی قوانین کے دائرے میں محدود نہیں ہوتے۔ ان کے اپنے علل و اسباب ہوتے ہیں جو دوسروں کے لیے ناقابل تسخیر ہوتے ہیں۔ مثلاً بیماری سے شفا دست مسیحا کے ذریعے ہو تو شفایابی کے علل و اسباب دوسروں کے لیے ناقابل تسخیر ہیں، جبکہ دوا کے ذریعے حاصل ہونے والی شفا کے علل و اسباب قابل تسخیر ہیں۔