آیت 50
 

وَ اِذۡ فَرَقۡنَا بِکُمُ الۡبَحۡرَ فَاَنۡجَیۡنٰکُمۡ وَ اَغۡرَقۡنَاۤ اٰلَ فِرۡعَوۡنَ وَ اَنۡتُمۡ تَنۡظُرُوۡنَ﴿۵۰﴾

۵۰۔ اور (وہ وقت بھی یاد کرو ) جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو شق کیا پھر تمہیں نجات دی اور تمہاری نگاہوں کے سامنے فرعونیوں کو غرق کر دیا۔

تشریح کلمات

فَرَقۡنَا:

فرق اور فلق، شگاف کو کہتے ہیں۔ سورۂ شعراء آیہ ۶۳ میں ارشاد ہے: فَانۡفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرۡقٍ کَالطَّوۡدِ الۡعَظِیۡمِ ’’ چنانچہ دریا شق ہو گیا اور ہر حصہ اتنا بڑا تھا جیسے بڑا پہاڑ‘‘۔ بِکُمُ میں باء ، سببیہ ہے۔ یعنی تمہارے لیے۔

الْبَحْرَ:

بحیرہ احمر کی خلیج مراد ہے، جسے آج کل ’’ نہر سویز ‘‘ کہتے ہیں۔

تفسیرآیات

بنی اسرائیل نے فرعونی مظالم سے تنگ آکر حضرت موسیٰ (ع) کی قیادت میں مصر سے نکل کر اپنے آبائی وطن فلسطین جانے کا فیصلہ کیا اور فرعونی حکومت کے خوف کی وجہ سے رات کو سفر اختیار کیا۔ لیکن رات کی تاریکی میں راستہ بھول گئے۔ ادھر فرعون کو خبر ہو گئی اور وہ اپنے لشکر سمیت بنی اسرائیل کے تعاقب میں آ پہنچا۔ ایک عجیب کیفیت تھی۔ بنی اسرائیل کے سامنے سمندر، اطراف میں پہاڑیاں اور پشت پر فرعونی لشکر۔ وہ بہت پریشان ہوئے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم کیا اور حکم دیا کہ دریا میں چل پڑو۔ چنانچہ پانی نے دونوں اطراف سے سمٹ کر پہاڑ کی شکل اختیار کرلی اور درمیان میں خشک راستہ پیدا ہو گیا۔ بنی اسرائیل کے گزرنے کے بعد فرعونی لشکر بھی اسی راستے پر چل پڑا۔ لیکن جب وہ وسط میں پہنچا تو پانی کے دونوں ایستادہ حصے باہم مل گئے اور یوں فرعون کا سارا لشکر فرعون سمیت غرق آب ہو گیا۔

ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ انبیاء (ع) کے معجزات معمول کے مادی علل و اسباب اور مادی قوانین کے دائرے میں محدود نہیں ہوتے بلکہ ماورائے مادہ ان کے اپنے علل و اسباب ہو تے ہیں اور کم ازکم ارادۂ الہٰی ان کی بنیادی علت اور سبب ہوتا ہے۔

اس مقام پر مادی علل و اسباب کے ساتھ معجزات انبیاء کی توجیہ کرنے والے یہ کہتے ہیں : بحیرہ احمر اس زمانے میں کم گہرا تھا اور حضرت موسیٰ(ع) نے بنی اسرائیل کے ساتھ اسے عبور کیا تو وہ ’’ جزر ‘‘ کی حالت میں تھا لیکن جب فرعون اپنے لشکر کے ہمراہ وہاں سے گزرا تو سمندر ’’مد‘‘ کی حالت میں آگیا اور وہ سب غرق ہو گئے۔

قرآنی سیاق و سباق مد و جزر کی اس توجیہ کو یکسر مسترد کرتا ہے کیونکہ:

۱۔ قرآن فرماتا ہے: ’’ہم نے در یا میں شگاف پیدا کر دیا‘‘ جب کہ مد و جزر میں شگاف نہیں ہوا کرتا بلکہ پانی کا اتار چڑھاؤ ہوتا ہے۔

۲۔ ایک اور جگہ پر قرآن اس واقعے کو اس طرح بیان کرتا ہے:

فَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡبَحۡرَ ؕ فَانۡفَلَقَ ۔۔۔۔{۲۶ شعراء : ۶۳}

پھر ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی: اپنا عصا دریا پر ماریں، چنانچہ دریا پھٹ گیا۔

اس آیت میں انفلاق یعنی شگاف پڑنے کو ضرب عصا کا نتیجہ بتایا گیا ہے۔ عصائے موسیٰ (ع) سے مد و جزر کا بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے۔

۳۔ دریا کے شگاف کی نقشہ کشی کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے کہ دریا اس طرح پھٹا کہ اطراف میں موجیں عظیم پہاڑوں کی مانند کھڑی تھیں: فَانۡفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرۡقٍ کَالطَّوۡدِ الۡعَظِیۡمِ اور ظاہر ہے کہ مد و جزر میں یہ کیفیت نہیں ہوتی، ورنہ اب بھی مد و جزر کے وقت یہی منظر دیکھنے میں آتا۔

۴۔ قرآنی تفسیر کے مطابق حضرت موسیٰ (ع) نے بحکم خدا پانی کے وسط میں راستہ بنایا تھا: فَاضۡرِبۡ لَہُمۡ طَرِیۡقًا فِی الۡبَحۡرِ یَبَسًا ۔۔۔۔{۲۰ طہٰ:۷۷} پھر ان کے لیے سمندر میں خشک راستہ بنا دیں۔ اگر حضرت موسیٰ (ع) نے حالت جزر میں سمندر عبور کیا ہوتا تو فِی الۡبَحۡرِ کی بجائے سَاحِلُ الۡبَحۡر کہنا درست ہوتا۔

۵۔ سمندر اتنا کم گہرا نہیں ہوتا کہ اسے پیدل یا سوار ہو کرعبور کیا جا سکے۔

۶۔ مد و جزر میں اتنا وقفہ نہیں ہوتا کہ ایک بڑا گروہ اتنے عریض سمندر کو عبور کرے تو پھر مد آئے۔

۷۔ کچھ لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ جس جگہ سے صحرائے سینا کو عبور کیا گیا، وہ ایک دلدلی پٹی تھی جس کے دونوں جانب سمندر تھا۔ اگر یہ نظریہ درست مان لیا جائے تو فرعونیوں کو بھی اس دلدلی پٹی سے گزر جانا چاہیے تھا۔

اہم نکات

۱۔ بنی اسرائیل کا بچنا اور فرعونی لشکر کا غرق ہوناایک معجزہ تھا۔ مادی علل واسباب سے اس کی توجیہ کرنا درست نہیں ہے۔


آیت 50