آیت 43
 

وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ﴿۴۳﴾

۴۳۔اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو اور (اللہ کے سامنے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا کرو۔

تشریح کلمات

رکوع:

(ر ک ع) تواضع۔ فروتنی۔ سر خم کرنا۔

تفسیرآیات

سلسلۂ خطاب ہنوز یہودیوں کے لیے جاری ہے۔ اس آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ نماز قائم کرنا یہودیوں پر بھی واجب تھا، البتہ ان کے موجودہ صحیفوں میں نماز کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ ممکن ہے کہ قرآن میں اس حکم کے ذکر کا مطلب یہ ہو کہ آنے والی امتوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہودیوں نے اللہ کے احکام اور عہد و میثاق کی کس قدر خلاف ورزی کی ہے اور انہیں کس بری طرح پامال کیا ہے۔

زکوٰۃ کو یہودی علماء نے فقراء و مساکین کی بجائے اپنے لیے مخصوص کر لیا تھا:

اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡاَحۡبَارِ وَ الرُّہۡبَانِ لَیَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ {۹ توبۃ: ۳۴}

(اہل کتاب کے) بہت سے علماء اور راہب ناحق لوگوں کا مال کھاتے ہیں۔۔۔۔

بنا بر ایں یہودیوں نے اللہ کے احکام کو یکسر مسخ کر دیا تھا۔

اہم نکات

۱۔ سابقہ آیات میں بنی اسرائیل کو درج ذیل امو رپر سرزنش کی گئی ہے:

i۔احسان فراموشی: اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ ۔

ii۔ بے وفائی: اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ ۔

iii۔ بیباکی: وَ اِیَّایَ فَارۡہَبُوۡنِ ۔

iv۔ سرکشی: وَ اٰمِنُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلۡتُ ۔

v۔ کفر: وَ لَا تَکُوۡنُوۡۤا اَوَّلَ کَافِرٍۭ بِہٖ ۔

vi۔دین فروشی: وَ لَا تَشۡتَرُوۡا بِاٰیٰتِیۡ ثَمَنًا قَلِیۡلًا ۔

vii۔ معصیت: وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوۡنِ ۔

viii۔ حق و باطل کی آمیزش: وَ لَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ ۔

ix۔ کتمان حق: وَ تَکۡتُمُوا الۡحَقَّ ۔

x۔ ناشکری: وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ ۔

xi۔حرص مال: وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ۔

xii۔تکبر: وَ ارۡکَعُوۡا مَعَ الرّٰکِعِیۡنَ ۔

۲۔ الٰہی اقدار اور مکافات عمل کا قانون تمام ادیان میں نیز تمام انسانوں اور تمام نسلوں کے لیے یکساں ہے۔

۳۔ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اور اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ کے درمیان عوض و معوض کا نہیں بلکہ علت و معلول کا ربط ہے۔

۴۔ اپنی خواہشات کو اللہ کی خوشنودی پر مقدم رکھنا، اللہ کی آیات کو حقیر قیمت پر بیچنے کے مترادف ہے۔

۵۔ لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے حق و باطل کو ملا کر پیش کرنا فکری و اعتقادی خیانت ہے۔

تحقیق مزید: الفقیہ ۶: ۳۷۵۔ ۲: ۱۰۔ التہذیب ۴: ۸۹۔ الوسائل ۹ : ۲۲۵


آیت 43