آیت 42
 

وَ لَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَ تَکۡتُمُوا الۡحَقَّ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ﴿۴۲﴾

۴۲۔ اور حق کو باطل کے ساتھ خلط نہ کرو اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ۔

تشریح کلمات

تَلۡبِسُوا:

(ل ب س ) خلط ملط کرنا۔ ملا دینا۔

تَکۡتُمُوا:

(ک ت م) کتمان اس چیزکو چھپانا جس کا اظہار مناسب یا ضروری ہو۔ اس کی ضد اظہار ہے۔

تفسیرآیات

اللہ کی طرف سے نازل شدہ برحق باتوں کو باطل اور جعلی نظریات سے مخلوط کرنے کی مذمت ہو رہی ہے۔ باطل کو حق کی شکل میں پیش کرنے کا یہ عمل نہایت خطرناک ہے۔ روایت ہے کہ حضرت علی علیہ السلام اس ضمن میں فرماتے ہیں :

فَلَوْ اَنَّ الْبَاطِلَ خَلَصَ مِنْ مِزَاجِ الْحَقِّ لَمْ یَخْفَ عَلَی الْمُرْتَادِیْنَ وَ لَوْ اَنَّ الْحَقَّ خَلَصَ مِنْ لَّبْسِ الْبَاطِلِ لاَنْقَطَعَتْ عَنْہُ أَلْسُنُ الْمُعَانِدِیْنَ وَ لٰکِنْ یُوْخَذُ مِنْ ھٰذا ضِغْثٌ وَّ مِنْ ھذا ضِغْثٌ فَیُمْزَجَانِ فَھُنَالِکَ یَسْتَوْلِی الشَّیْطَانُ عَلَی اَوْلِیَائِہِ۔ } نہج البلاغۃ خطبہ : ۵۰}

اگر باطل حق کی آمیزش سے خالی ہوتا تو وہ حق کے متلاشیوں سے پوشیدہ نہ رہتا اور اگر حق باطل کے شائبے سے پاک ہو کر سامنے آتا تو عناد رکھنے والی زبانیں بند ہو جاتیں۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کچھ ادھر سے لیا جاتا ہے اور کچھ ادھر سے اور دونوں کو مخلوط کر دیا جاتا ہے۔ پس اس موقع پر شیطان اپنے دوستوں پر چھا جاتا ہے۔

وَ لَا تَلۡبِسُوا: حق و باطل کو مخلوط اور حق میں تحریف کی ممنوعیت پر مشتمل یہ حکم لفظی اور معنوی دونوں قسم کی تحریفات کو شامل ہے اور یہودی دونوں قسم کی تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں۔

شان نزول

ان آیات کی شان نزول کے بارے میں تفسیر مجمع البیان میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے کہ حی بن اخطب، کعب بن اشرف اور یہودیوں کے ایک گروہ کے لیے دوسرے یہودیوں کے ذمے ایک کھانے کا اہتمام کرنا تھا۔ انہیں خوف لاحق ہوا کہ رسول خدا (ص) کے حکم پر کہیں یہ لوگ اس کھانا دینےکو ترک نہ کر دیں۔ چنانچہ انہوں نے توریت کی ان آیات میں تحریف کر دی جن میں رسول اکرم (ص) کا ذکر اور آپ (ص)کے اوصاف بیان ہوئے تھے۔ آیت میں حقیر قیمت سے مراد یہی چیز ہے۔

اس حقیقت کی طرف ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں کہ شان نزول اگرچہ خاص ہو، مگر حکم عام ہوا کرتا ہے۔

اہم نکات

۱۔ حق و باطل کی آمیزش مؤثر شیطانی چال ہے۔


آیت 42