آیات 47 - 48
 

یٰبَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ اذۡکُرُوۡا نِعۡمَتِیَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ وَ اَنِّیۡ فَضَّلۡتُکُمۡ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۴۷﴾

۴۷۔ اے بنی اسرائیل! میری وہ نعمت یاد کرو جس سے میں نے تمہیں نوازا اور تمہیں عالمین پر فضیلت دی۔

وَ اتَّقُوۡا یَوۡمًا لَّا تَجۡزِیۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ شَیۡئًا وَّ لَا یُقۡبَلُ مِنۡہَا شَفَاعَۃٌ وَّ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡہَا عَدۡلٌ وَّ لَا ہُمۡ یُنۡصَرُوۡنَ﴿۴۸﴾

۴۸۔ اور اس دن سے بچنے کی فکر کرو جس دن نہ کوئی کسی کا بدلہ بن سکے گا اور نہ کسی کی سفارش قبول ہو گی اور نہ کسی سے کوئی معاوضہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔

تشریح کلمات

شَفَاعَۃٌ:

( ش ف ) سفارش۔ یہ کلمہ شفع سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے، جفت، ضمیمہ، جوڑنا۔ جب کوئی شخص کسی کی سفارش کرتا ہے تو اپنی آبرو اور وقار کو اس کے ساتھ ضمیمہ کرتا ہے۔ اسی لیے سفارش کو شفاعت کہا جاتا ہے۔

عَدۡلٌ:

( ع د ل ) برابری۔ انصاف کے لیے بھی عدل کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے، کیونکہ انصاف تب متحقق ہو سکتا ہے جب سب کو برابر حق مل جائے: اَوۡ عَدۡلُ ذٰلِکَ صِیَامًا ۔۔ {۵ مائدہ: ۹۵} نیز یہ لفظ معاوضے اور فدیے کے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے، کیونکہ معاوضہ یا فدیہ بھی اس چیز کے برابر سمجھا جاتا ہے جس کے لیے وہ دیا جا رہا ہو۔

رسول خدا (ص) سے روایت ہے: بِالْعَدْلِ قَامَتِ السَّمٰوَاتُ وَ الْاَرْض {عوالی اللآلی ۴ : ۱۰۲} یعنی تکوینی اور فطری توازن سے آسمانوں اور زمین کا نظام قائم ہے۔

تفسیر آیات

یوماً سے مراد روز قیامت ہے، جس دن تمام وسائل منقطع ہو جائیں گے اور کوئی کسی کے کام نہ آئے گا۔ چنانچہ ارشاد ہے:

یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمۡ وَ اخۡشَوۡا یَوۡمًا لَّا یَجۡزِیۡ وَالِدٌ عَنۡ وَّلَدِہٖ ۫ وَ لَا مَوۡلُوۡدٌ ہُوَ جَازٍ عَنۡ وَّالِدِہٖ شَیۡئًا {۳۱ لقمان : ۳۳}

لوگو! اپنے پروردگار (کے غضب ) سے بچو اور اس دن کا خوف کرو جس دن نہ باپ بیٹے کے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آئے گا۔

آیت کے اس حصے میں یہودیوں کے ایک نظریے کی تردیدکی گئی ہے جس کے مطابق وہ دوسروں کے ’’اعمال حسنہ‘‘ کی وجہ سے اپنی بخشش کی امید رکھتے ہیں۔

مولانا دریابادی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:

لَّا تَجۡزِیۡ نَفۡسٌ عَنۡ نَّفۡسٍ سے اس اسرائیلی عقیدے کی تردید مقصود ہے، جو آج تک ’’جیوش انسائیکلو پیڈیا‘‘ میں ان الفاظ میں لکھا چلا آیا ہے کہ ’’بہت سے لوگ اپنے اسلاف کے اعمال حسنہ کی بنا پر بخش دیے جائیں گے۔"

وَّ لَا یُقۡبَلُ مِنۡہَا شَفَاعَۃٌ اس جملے میں یہودیوں کے ایک اور عقیدے کی تردید ہے، جس کے مطابق وہ اپنے اسلاف کی شفاعت پر یقین رکھتے ہیں، البتہ عمل و ایمان کی بنا پر نہیں، بلکہ نسب و نسل کی بنیاد پر!!۔ چنانچہ خداوند عالم نے فرمایا: ’’ان کی شفاعت قبول نہ ہوگی‘‘۔

ایک اور جگہ کفار کے بارے میں ارشاد قدرت ہے :

فَمَا تَنۡفَعُہُمۡ شَفَاعَۃُ الشّٰفِعِیۡنَ ﴿﴾ {۷۴ مدثر: ۴۸}

اب سفارش کرنے والوں کی سفارش انہیں کچھ فائدہ نہ دے گی۔

ان آیات سے شفاعت کی نفی نہیں ہوتی بلکہ شفاعت کے وجود کا عندیہ ملتا ہے۔ البتہ یہودیوں اور کافروں کے لیے کسی قسم کی شفاعت قابل قبول نہ ہو گی۔

وَّ لَا یُؤۡخَذُ مِنۡہَا عَدۡلٌ آیت کے اس حصے میں بھی یہودیوں کے ایک عقیدے کو رد کیا گیا ہے جو ’’ عقیدۂ کفارہ ‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ نظریہ مسیحیوں کے ہاں کچھ زیادہ ہی رائج ہو گیا کہ گناہ کیے جاؤ اور کفارہ دے کر انہیں بخشواؤ۔ خدا فرماتا ہے : کسی سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جائے گا نیز یَوۡمَ لَا یَنۡفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوۡنَ ﴿﴾ ۔ {۲۶ شعراء : ۸۸} اس روز نہ مال کچھ فائدہ دے گا اور نہ اولاد۔

بنی اسرائیل کو حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق اور حضرت یعقوب علیہم السلام کی اولاد ہونے پر بڑا ناز تھا۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ ان جلیل القدر انبیاء کی اولاد ہونے کی وجہ سے ان کی نجات یقینی ہے اور ان بزرگوں کی سفارش سے ان کے سارے گناہ معاف ہو جائیں گے۔

مسئلہ شفاعت: متعدد قرآنی آیات میں مسئلہ شفاعت کو بیان کیا گیا ہے جنہیں باہم مربوط کرنے سے ایک جامع دستور اور واضح روش سامنے آتی ہے۔

شفاعت صرف اللہ سے مخصوص ہے: بعض آیات سے یہ بات واضح ہے کہ شفاعت صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مخصوص ہے اور شفاعت کرنا بنیادی طور پر اسی کا کام ہے: قُلۡ لِّلّٰہِ الشَّفَاعَۃُ جَمِیۡعًا {۳۹ زمر : ۴۴} کہدیجیے: ساری شفاعت اللہ کے اختیار میں ہے۔

مَا لَکُمۡ مِّنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ وَّلِیٍّ وَّ لَا شَفِیۡعٍ {۳۲ سجدہ : ۴}

اس کے سوا تمہارا نہ کوئی کارساز ہے اور نہ شفاعت کرنے والا۔

غیر اللہ کی شفاعت: متعدد آیات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ غیر اللہ کو بھی شفاعت کا خدا داد حق حاصل ہے۔ البتہ یہ حق ذاتی اور استقلالی نہیں بلکہ اذن خدا سے استعمال کیا جا سکتا ہے:

یَوۡمَئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوۡلًا﴿﴾ {۲۰طہ : ۱۰۹}

اس روز شفاعت کسی کو فائدہ نہ دے گی سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور اس کی بات کو پسند کرے۔

لَا یَمۡلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا ﴿﴾ {۱۹ مریم : ۸۷}

کسی کو شفاعت کا اختیار نہ ہو گا سوائے اس کے جس نے رحمن سے عہد لیا ہو۔

شفاعت کی حقیقت: شفاعت کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

۱۔ انسان مادی یا غیر مادی کمال پر فائز ہونے کا خواہاں ہو، لیکن اس کے پاس کافی وسائل یا لیاقت و صلاحیت موجود نہ ہو۔ مثلاً اس نے اپنے آقا کے احکام کی کماحقہ تعمیل تو نہیں کی، جس کی وجہ سے وہ کمال حاصل کر سکتا، البتہ وہ شفاعت کا سہارا لے کر اس مقام پر فائز ہو سکتا ہے۔

۲۔ آقا کے احکام کی نافرمانی کی صورت میں اگر کوئی شخص عذاب کا مستحق قرار پائے تو وہ کسی شخصیت کی سفارش یا شفاعت کا سہارا لے گا تاکہ اس سے یہ عذاب ٹل جائے۔

البتہ دونوں صورتوں میں شفاعت اس وقت مؤثر ہو گی جب مذکورہ شخص شفاعت کی اہلیت رکھتا ہو،کیونکہ شفاعت ہر جگہ مؤثر نہیں ہوا کرتی:

فَانِّمٰا الشَّفَاعَۃُ مُتَمِّمَۃٌ لِلسَّبَبِ لَا مُسْتَقِلَّۃ فِی التَّاثِیْر ۔ {المیزان ۱: ۱۵۸}

شفاعت مستقل سبب نہیں ہے، بلکہ تکمیل سبب کے لیے ہوتی ہے۔

بنا برایں کسی اہم علمی عہدے کے لیے ایک جاہل ان پڑھ کی سفارش کسی طرح بھی معقول نہیں، ایک سرکش کافر کے بارے میں مولا کے سامنے شفاعت اور سفارش کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا جا سکتا۔

قابل شفاعت کون؟: سابقہ بیان سے یہ بات واضح ہو گئی کہ ہر شخص کی سفارش اور شفاعت نہیں ہو سکتی۔ اس کے لیے قرآن نے ایک معیار مقرر کیا ہے، جس کے بغیر کوئی بھی شفاعت سے مستفید نہیں ہو سکتا۔ قرآنی آیات کی روسے شفاعت کے لیے دو باتیں سامنے آتی ہیں:

۱۔ شفاعت کے قابل وہ لوگ ہیں جو اللہ کے پسندیدہ دین پر قائم ہوں، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

لَا یَشۡفَعُوۡنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارۡتَضٰی ۔۔۔ {۲۱ انبیاء: ۲۸}

اور وہ فقط ان لوگوں کی شفاعت کر سکتے ہیں جن سے اللہ راضی ہے۔

نیز فرمایا :

یَوۡمَئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوۡلًا﴿﴾ {۲۰طہٰ : ۱۰۹}

اس روز شفاعت کسی کو فائدہ نہ دے گی سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور اس کی بات کو پسند کرے۔

۲۔ دین خدا پر قائم لوگ اپنے گناہان کبیرہ کے ساتھ وارد حشر ہو ئے ہوں۔ کیونکہ گناہان صغیرہ تو اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی بخش دیتا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

اِنۡ تَجۡتَنِبُوۡا کَبَآئِرَ مَا تُنۡہَوۡنَ عَنۡہُ نُکَفِّرۡ عَنۡکُمۡ سَیِّاٰتِکُمۡ ۔۔۔۔ {۴ نساء : ۳۱}

اگر تم ان بڑے بڑے گناہوں سے اجتناب کرو جن سے تمہیں منع کیا گیا ہے تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے۔

رسول اکرم (ص) نے فرمایا :

اِنَّمَا شَفَاعَتِیْ لِاَہْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِی ۔ {من لا یحضرہ الفقیہ ۳ : ۵۷۴ حدیث: ۴۹۶۳}

میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں کو حاصل ہو گی جو گناہان کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہوں۔

لہٰذا شفاعت ان لوگوں کی ہو گی جو دین حق پر قائم ہوں اور گناہان کبیرہ کے مرتکب ہوئے ہوں اور توبہ وغیرہ کے ذریعے بخشے نہ گئے ہوں۔

قرآن مجید نے ان لوگوں کے لیے مزید شرائط بیان کی ہیں جنہیں شفاعت مل سکتی ہے۔

۱۔ عہد : شفاعت قبول ہونے کی شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے عہد لیا ہو: لَا یَمۡلِکُوۡنَ الشَّفَاعَۃَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَہۡدًا ﴿﴾ ۔ {۱۹ مریم : ۸۷}

۲۔ پسند: دوسری شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے بارے میں شفاعت کو پسند کرے: یَوۡمَئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوۡلًا﴿﴾ {۲۰ طہٰ : ۱۰۹}

۳۔خوف خدا : تیسری شرط خوف خدا ہے:

وَ لَا یَشۡفَعُوۡنَ ۙ اِلَّا لِمَنِ ارۡتَضٰی وَ ہُمۡ مِّنۡ خَشۡیَتِہٖ مُشۡفِقُوۡنَ﴿﴾ {۲۱ الانبیاء : ۲۸}

اور وہ فقط ان لوگوں کی شفاعت کر سکتے ہیں جن سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ کی ہیبت سے ہراساں رہتے ہیں۔

شفیع کون؟

۱۔ دنیا میں:

الف۔ توبہ: دنیا میں گناہوں سے پاک ہونے کے لیے توبہ ایک وسیلہ اور شفیع ہے۔ توبہ کے ذریعے کبیرہ ہوں یا صغیرہ، تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:

قُلۡ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ الذُّنُوۡبَ جَمِیۡعًا ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡغَفُوۡرُ الرَّحِیۡمُ﴿﴾وَ اَنِیۡبُوۡۤا اِلٰی رَبِّکُمۡ ۔۔۔{۳۹ زمر : ۵۳۔ ۵۴}

کہدیجیے: اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، یقینا اللہ تمام گناہوں کو معاف فرماتا ہے، وہ یقینا بڑا معاف کرنے والا مہربان ہے اور اپنے رب کی طرف پلٹ آؤ۔

وَ اِذَا جَآءَکَ الَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلۡ سَلٰمٌ عَلَیۡکُمۡ کَتَبَ رَبُّکُمۡ عَلٰی نَفۡسِہِ الرَّحۡمَۃَ ۙ اَنَّہٗ مَنۡ عَمِلَ مِنۡکُمۡ سُوۡٓءًۢ ابِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ وَ اَصۡلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿﴾ {۶ انعام : ۵۴}

اور جب آپ کے پاس ہماری آیات پر ایمان لانے والے لوگ آ جائیں تو ان سے کہیے: سلام علیکم تمہارے رب نے رحمت کو اپنے اوپر لازم قرار دیا ہے کہ تم میں سے جو نادانی سے کوئی گناہ کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کر لے اور اصلاح کر لے تو وہ بڑا بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔

وَ اِنِّیۡ لَغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہۡتَدٰی﴿﴾ {۲۰طہٰ: ۸۲}

جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل انجام دے پھر راہ راست پر چلے تو میں اسے خوب بخشنے والا ہوں۔

وَ الَّذِیۡنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِہَا وَ اٰمَنُوۡۤا ۫ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿﴾ {۷ اعراف : ۱۵۳}

اور جنہوں نے گناہ کا ارتکاب کیا پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور ایمان لے آئے تواس (توبہ) کے بعد آپ کا رب یقینا بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

ب۔نیکی :نیکیاں بجا لانے سے گناہ خود بخود معاف ہو جاتے ہیں:

اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ ۔۔ {۱۱ ہود : ۱۱۴}

نیکیاں بے شک برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔

ج۔ ایمان : ایمان بھی دنیا میں وسیلۂ شفاعت ہے۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ۙ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ اَجۡرٌ عَظِیۡمٌ﴿﴾ {۵ مائدہ : ۹}

اللہ نے ایمان والوں اور نیک عمل بجا لانے والوں سے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے۔

د۔ رسول کریم (ص): رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقینی طور پر شفاعت دارین کے لیے وسیلہ ہیں۔ دنیا میں رسول کریم (ص) کی شفاعت کے لیے ’’ استغفار ‘‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے:

وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ اِذۡ ظَّلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ جَآءُوۡکَ فَاسۡتَغۡفَرُوا اللّٰہَ وَ اسۡتَغۡفَرَ لَہُمُ الرَّسُوۡلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا﴿﴾ {۴ نساء : ۶۴}

اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے۔

ھ۔ ملائکہ :ملائکہ بھی ایمان والوں کی مغفرت کے لیے بطور شفیع دعا کرتے ہیں:

اَلَّذِیۡنَ یَحۡمِلُوۡنَ الۡعَرۡشَ وَ مَنۡ حَوۡلَہٗ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِہٖ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا {۴۰ مومن: ۷}

جو (فرشتے) عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں اور جو (فرشتے) اس کے اردگرد ہیں، سب اپنے رب کی ثنا کے ساتھ تسبیح کر رہے ہیں اور اس پر ایمان لائے ہیں اور ایمان والوں کے لیے مغفرت طلب کرتے ہیں۔

وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یُسَبِّحُوۡنَ بِحَمۡدِ رَبِّہِمۡ وَ یَسۡتَغۡفِرُوۡنَ لِمَنۡ فِی الۡاَرۡضِ ؕ {۴۲ شوریٰ: ۵}

اور فرشتے اپنے پروردگار کی ثنا کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور اہل زمین کے لیے استغفار چاہتے ہیں۔

و۔ مؤمنین: مؤمنین کی دعا سے بھی گناہوں کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ارشاد الہی ہے:

رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ ۔۔۔۔ {۵۹ حشر: ۱۰}

ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں۔

۲۔ آخرت میں: لفظ شفاعت بروز محشر ہونے والی سفارش کے لیے استعمال ہو اہے۔ متعدد قرآنی آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حشر کے دن درج ذیل ہستیوں کی شفاعت قبول ہو گی:

۱۔ انبیاء علیہم السلام

۲۔ آئمہ طاہرین علیہم السلام

۳۔ ملائکہ

۴۔ شہداء

عقیدہ شفاعت پر اعتراض: شفاعت کا عقیدہ ارتکاب گناہ کا باعث بنتا ہے اور احساس ذمہ داری کو ختم کرتا ہے۔

جواب: اولاً: یہ اعتراض اللہ تعالیٰ کی مغفرت، بخشش اور رحیمیت پر بھی کیا جا سکتا ہے، جب کہ ارشاد قدرت ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ {۴نساء : ۱۱۶}

اللہ صرف شرک سے درگزر نہیں کرتا، اس کے علاوہ جس کو چاہے معاف کر دیتا ہے۔

ثانیاً: عقیدۂ شفاعت صرف اس صورت میں گناہ اور لاپرواہی کا سبب بن سکتا ہے، جب گناہ اور گناہ گار کے بارے میں کوئی شرط نہ ہو۔ مثلاً اگر کہا جائے کہ فلاں قوم کی سفارش بلا شرط ہو گی یا فلاں گناہ کے بارے میں بلا شرط سفارش ہوگی تو اس صورت میں وہ قوم ارتکاب گناہ کی جسارت کرے گی۔لیکن اگر گناہ اورگناہ گار کا تعین بھی نہ ہو اور شفاعت کا مستحق بننے کی شرائط بھی مقرر ہوں تو انسان کو یہ علم نہیں ہو گا کہ وہ شفاعت کا مستحق بنے گا یا نہیں یا شفاعت کی شرائط اس میں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔

اس کا مثبت نتیجہ یہ ہے کہ انسان یاس و قنوطیت میں مبتلا نہیں ہوتابلکہ خوف و رجاء کے درمیان محتاط رہتا ہے اور ناامیدی کا شکار نہ ہونے کی وجہ سے اس کا ضمیر بیدار اور متحرک رہتا ہے۔

احادیث شفاعت

درج ذیل احادیث شفاعت پر دلالت کرتی ہیں:

٭ وَ فِیْ تَفْسِیْرِ الْفُرَاتِ عَنْ مُحمد بن قَاسِم بن عُبَیْد مُعَنْعَنًا عَنْ حرب بن شُرَیْحِ الْبَصَرِی قَالَ : قُلْتُ لِمُحَمَّد ِبْنِ عَلِیٍ عَلَیْہِ السَّلَامُ آیَّۃُ آیَۃٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ اَرْجَیٰ؟ قَالَ: فَمَا یَقُوْلُ فِیْہَا قَوْمُکَ؟ قَالَ قُلْتُ: یَقُوْلُوْنَ:يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓي اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللہِ۝۰ۭ قَالؑ:لَکِنَّا اَھْلُ الْبَیْتِ لَا نَقُوْلُ ذَلِکَ۔ قَالَ:قُلْتُ: فَاَیُّ شَیْئٍ تَقُوْلُوْنَ فِیْھَا؟ قَالَؑ:نَقُوْلُ: وَلَسَوْفَ يُعْطِيْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى، اَلشَّفَاعَۃَ وَ اللّٰہِ الشَّفَاعَۃِ وَ اللّٰہِ الشَّفَاعَۃَ ۔ {المیزان ۱: ۱۷۶۔ تفسیر فرات الکوفی ص ۵۷۱۔ بحار الانوار ج ۸ ص ۵۷ باب ۲۱ حدیث ۷۲}

تفسیر فرات میں ہے: محمد بن قاسم بن عبید نے حرب بن شریح بصری سے نقل کیا ہے کہ میں نے حضرت محمد بن علی علیہما السلام سے عرض کیا: کتاب خدا میں کون سی آیت سب سے زیادہ امید بخش ہے؟ فرمایا: تمہارے لوگ اس بارے میں کیا کہتے ہیں؟ میں نے عرض کی: ہمارے ہاں لوگ آیہ یٰعِبَادِیَ الَّذِیۡنَ اَسۡرَفُوۡا عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ لَا تَقۡنَطُوۡا مِنۡ رَّحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ کو سب سے زیادہ امید بخش سمجھتے ہیں۔ فرمایا: لیکن ہم اہل بیتؑ یہ نہیں کہتے۔ میں نے عرض کی: پس آپؑ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا: ہمارے نزدیک یہ آیت ہے: وَ لَسَوۡفَ یُعۡطِیۡکَ رَبُّکَ فَتَرۡضٰی﴿﴾ ’’عنقریب آپ کا رب آپ کو اس قدر عطا کرے گا کہ آپ خوش ہو جائیں گے‘‘ قسم بخدا یہ شفاعت ہے، قسم بخدا یہ شفاعت ہے، قسم بخدا یہ شفاعت ہے۔

٭ وَ فِیْ تَفْسِیْرِ الْقُمِّی : قَالَ عَلِیُ ابْنُ الحُسَیْنِؑ : لَا یَشْفَعُ اَحَدٌ مِنْ اَنْبِیَائِ اللّٰہِ وَ رُسُلِہِ یومَ القیامۃ حَتَّی یَاْذَنَ اللّٰہُ لَہٗ اِلَّا رَسُولُ اللّٰہِ، فَاِنَّ اللّٰہَ قد اَذِنَ لَہٗ فِی الشَّفَاعَۃِ من قَبْلِ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ، وَ الشَّفَاعَۃُ لَہٗ وَ لِلْاَئِمَّۃِ مِنْ وُلْدِہِ ثُمَّ بَعْدَ ذَلِکَ لِلْاَنْبِیَائِ ۔ {تفسیر القمی ج۲ ص ۲۰۱۔ المیزان ۱: ۱۷۹۔ یومَ القیامۃ کے بغیر۔}

تفسیر قمی میں ہے: حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے فرمایا: انبیاء و مرسلین میں سے کوئی بھی قیامت کے دن اذن خدا سے پہلے شفاعت نہیں کر سکتا سوائے رسول خدا (ص) کے، کیونکہ آپ (ص) کو قیامت کے دن سے پہلے اجازت دے دی گئی ہے۔ شفاعت کا حق آپ (ص) کو، پھر آپ کی اولاد میں سے ائمہ (ع) کو، اس کے بعد انبیاء (ع) کو حاصل ہے۔

٭ عَنْ عَلِیٍ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (ص): ثَلَاثَۃٌ یَشْفَعُوْنَ اِلَی اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ فَیُشْفَعُوْنَ: اَلْاَنْبِیَائُ ثُمَّ الْعُلَمَائُ ثُمَّ الشُّہَدَائُ ۔ {المیزان ۱: ۱۷۹۔ بحار الاانوار ج ۸ ص ۳۴ باب ۲۱ الشفاعۃ حدیث ۲}

حضرت علی (ع) سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: رسول خدا (ص) نے فرمایا: تین قسم کے افراد اللہ سے سفارش کرتے ہیں اور ان کی سفارش قبول ہو جاتی ہے۔ انبیاء، پھر علماء، پھر شہداء۔

٭ عَنْ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ آلِہِ وَ سَلَّمْ: مَنْ لَمْ یُؤْمِنْ بِحَوْضِیْ فَلَا اَوْرَدَہُ اللّٰہُ حَوْضِیْ وَ مَنْ لَمْ یُؤْمِنْ بِشَفَاعَتِیْ فَلَا اَنَا لَہُ اللّٰہُ شَفَاعَتِیْ، ثُمَّ قَالَ: اِنَّمَا شَفَاعَتِیْ لِاَھْلِ الْکَبَائِرَ مِنْ اُمَّتِیْ۔ {المیزان ۱ : ۱۷۴}

حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا: رسول خدا (ص) نے فرمایا: جو میرے حوض پر ایمان نہیں رکھے گا، اللہ اسے میرے حوض تک نہیں پہنچنے دے گا اور جو میری شفاعت پر ایمان نہیں رکھے گا، اسے میری شفاعت نصیب نہ ہو گی۔ پھر فرمایا (ص): میری شفاعت تو امت کے گناہان کبیرہ کے مرتکب افراد کے لیے ہے۔

٭ قال الْاِمَامُ الصَّادِقْ عَلَیْہِ السَّلَامُ: وَ اعلَمُوْا اَنَّہُ لَیْسَ یُغْنِیْ عَنْکُمْ مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ مِنْ خَلْقِہٖ شَیئا لٰا مَلَکٌ مُقَرَّبٌ وَ لَا نَبِیٌّ مُرْسَلٌ وَ لَا مَنْ دُوْنَ ذَلِکَ فَمَنْ سَرَّہُ اَنْ تَنْفَعَہُ شَفَاعَۃُ الشَّافِعِیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ فَلْیَطْلُبْ اِلَی اللّٰہِ أنْ یَرْضَیٰ عَنہ ۔ {اصول الکافی ج ۸ ص ۱۱۔ کتاب الروضۃ}

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: یاد رکھو اللہ کی مخلوق میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو اللہ سے بے نیاز ہو، خواہ وہ مقرب فرشتہ ہو یا نبی مرسل یا کوئی اس سے کمتر۔ اگر کوئی شخص شفاعت کرنے والوں کی شفاعت سے فائدہ حاصل کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اللہ کی خوشنودی طلب کرے۔

ان کے علاوہ ائمہ طاہرین علیہم السلام اور حضرت فاطمۃ الزہراء علیہا السلام کی شفاعت کے بارے میں کثیر احادیث موجود ہیں۔

اہم نکات

۱۔ شفاعت کی نعمت سے فقط مسلمان ہی بہرہ مند ہو سکتا ہے۔

۲۔ دنیا میں بخشش کے ذرائع توبہ، نیکی، ایمان نیز رسول خدا (ص)، ملائکہ اور مؤمنین کی استغفار ہے۔ جب کہ آخرت میں بخشش کا ذریعہ فقط رسول(ص)، آئمہ(ع)، ملا ئکہ اور شہداء کی شفاعت ہے۔

۳۔ شفاعت کا ئناتی نظام کا ایک اہم حصہ ہے، نہ کہ جانبداری اور نسلی امتیاز۔

۴۔ حصول شفاعت کے لیے مخصوص شرائط اور اہلیت کی موجودگی ضروری ہے۔

۵۔ نظریۂ شفاعت انسان کو ناامیدی اور یاس سے نجات دلاتا ہے اور اس میں قوت عمل پیدا کرتا ہے۔

۶۔ بعض مقررہ شرائط کے تحت شفاعت کرنے والی ہستی کی سفارش کے نتیجے میں گناہوں کی بخشش اور کامل ترین مقام پر رسائی کا نام شفاعت ہے۔

تحقیق مزید:

الامالی للصدوق مجلس ۱۲ ص ۵۰۔ بحار الانوار ۸: ۵۸۔ تفسیر العیاشی ۲: ۳۱۴۔ الخصال ۱: ۶۳ و ۲:۶۲۴۔ متشابہ القرآن ۲: ۱۱۹۔ الکافی ۸: ۱۱۔


آیات 47 - 48