آیت 49
 

وَ اِذۡ نَجَّیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآ ءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ﴿۴۹﴾

۴۹۔ اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی، جو تمہیں بری طرح اذیت دیتے تھے، تمہارے بیٹوں کو ذبح کرتے تھے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑا امتحان تھا۔

تشریح کلمات

اٰلِ:

لغت میں اہل کے مترادف ہے۔ آل اور اہل میں فرق یہ ہے:

۱۔ آل کی اضافت نام و لقب کے ساتھ ہوتی ہے۔ جیسے: آل محمد (ص) و آل مصطفٰی (ص) ۔ نکرہ کی طرف اس کی اضافت نہیں ہو تی۔ لہٰذا اٰلُ رَجُلٍ نہیں کہا جاتا، جب کہ اَہْلُ رَجُلٍ کہا جاتا ہے۔

۲۔ زمان و مکان کی طرف آل کی اضافت نہیں ہوتی۔ چنانچہ آلُ زَمَانٍ، آلُ مَدِیْنَۃٍ کہنا غلط ہے، جب کہ اَہْلُ زَمَانٍ، اَہْلُ مَدِیْنَۃٍ کہنا درست ہے۔

قریبی اور سگے رشتہ داروں کو آل کہتے ہیں جیسے قول خداوندی ہے:

فَقَدۡ اٰتَیۡنَاۤ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ ۔۔{۴ نساء : ۵۴}

ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی۔

نیز فرمایا:

وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤۡمِنٌ ٭ۖ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ ۔۔۔ {۴۰ غافر: ۲۸}

اور آل فرعون میں سے ایک مومن جو اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا، کہنے لگا۔

ظاہر ہے کہ ایک مومن مرد کو فرعون کا سگا رشتہ دار ہونے کی وجہ سے آل کہا گیا ہے، جب کہ وہ فرعون کا ہم عقیدہ نہ تھا۔

وَ یُسْتَعْمَلُ فِیْمَنْ یَخْتَصُّ بِالْاِنْسَانِ اِخْتِصَاصًا ذَاتِیًا اِمَّابِقَرَابَۃٍ قَرِیْبَۃٍ اَوْبِمَوَالَاۃٍ ۔ {مفردات راغب ص ۳۰ مطبوعہ ایران دفتر نشر الکتاب ۱۴۰۴ ھ}

یہ اس (انسان) کے لیے استعمال ہوتا ہے جو ذاتی طور پر یعنی قرابت یا دوستی کی وجہ سے اس کے ساتھ مخصوص ہو۔

البتہ اگر قرینہ موجود ہو تو لفظ آل دینی اور فکری قرابت کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے وَ اِذۡ اَنۡجَیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ {۷ اعراف : ۱۴۱} میں آل فرعون سے اس کے ہم نوا مراد ہیں۔ کیونکہ حضرت موسیٰ (ع) نے بنی اسرائیل کو صرف فرعون کے رشتہ داروں سے نہیں، بلکہ فرعونی نظام سلطنت سے نجات دلائی تھی۔

فِرۡعَوۡنَ:

شاہان مصر کو فرعون کہا جاتا تھا، جس کی جمع فراعنہ ہے۔ اس طرح شاہان روم کو قَیْصَر ، شاہان ایران کو کِسْریٰ اور مشرک بادشاہوں کو خَاقَان کہا جاتا تھا۔ ایک قول کی بنا پر فِرۡعَوۡنَ دو مصری الفاظ پَر اور عَوْن کا مرکب ہے۔ پس یہ ایک غیر عربی لفظ ہے جس کا معنی ’’ بڑا ایوان ‘‘ ہے۔ جس طرح سلاطین آل عثمان کے لیے الباب العالی کا لفظ استعمال ہوتا تھا۔

یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ:

(س و م) سوم یعنی کسی پر تشدد کرنا۔ مشقت اور ناقابل تحمل بوجھ ڈالنا۔ اس کا اصلی معنی کسی چیز کی تلاش میں نکلنا ہے۔

بَلَآ ءٌ:

آزمائش۔ (ب ل ی) اس کا مادہ ہے، جس کا معنی ’’پر انا ہونا‘‘ ہے۔ آزمائش کو اس لیے بلاء کہتے ہیں کہ امتحان میں ڈالنے سے انسان کو تکلیف اور اذیت پہنچتی ہے، جس سے پرانی آلودگی ختم ہو جاتی ہے اور امتحان سے فراغت کے بعد تازگی کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ دکھ درد کو بھی بلاء کہا جاتا ہے، کیونکہ وہ انسان کو پرانا کر دیتا ہے، جس سے وہ نقاہت محسوس کرتا ہے۔

تفسیر آیات

مصر میں بنی اسرائیل کی آبادی کا سہرا حضرت یوسف (ع) کے سر ہے، جو فلسطین سے وہاں پہنچے۔ قرآن مجید نے یہ واقعہ سورۂ یوسف میں بیان کیا ہے۔ بعد میں آپ (ع) کے والد اور بھائی بھی مصر آگئے۔ فرزندان یعقوب کو مصر کی آسائشیں راس آئیں اور ان میں نسلی افزائش بڑی تیزی سے ہونے لگی۔ یوں چار سو سال کے عرصے میں بنی اسرائیل کی آبادی چھ لاکھ تک پہنچ گئی۔ اس منظم اور متحد اقلیت کی روز افزوں آبادی سے فرعون خوفزدہ ہو گیا۔ چنانچہ اس نے بنی اسرائیل کی نسلی افزائش کی روک تھام اور موجودہ نسل کے قلع قمع کے لیے انہیں سخت ترین اور پرمشقت کاموں میں لگا دیا۔ مثلاً بڑے بڑے پتھر اٹھانا نیز دیوقامت ہیکلوں اور محلات کی تعمیر وغیرہ۔ لیکن اس کے باوجود بنی اسرائیل نے اپنے رسوم و اخلاق و عادات کو ترک نہ کیا اور فرعون کا یہ دباؤ ان کی روحانی اور امید فردا کی طاقت کو ختم نہ کر سکا۔ چنانچہ فرعون نے بنی اسرائیل کے نوزائیدہ بچوں کو قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ہر دائی کو یہ حکم تھا کہ بنی اسرائیل میں سے جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو، اس کا گلا گھونٹ دیا جائے یا اسے جلادوں کے حوالے کر دیا جائے تاکہ وہ اس کا سر تن سے جدا کر دیں۔ {پرتوی از قرآن ۱: ۱۵۳}

اہم نکات

۱۔ محکوم اقوام سے بیگار لینااور ان کی نسل کشی طاغوتی طاقتوں کا وتیرہ رہاہے۔


آیت 49