آیات 45 - 46
 

وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ؕ وَ اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾

۴۵۔اور صبر اور نماز کا سہارا لو اور یہ (نماز) بارگراں ہے، مگر خشوع رکھنے والوں پر نہیں۔

الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ وَ اَنَّہُمۡ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ﴿٪۴۶﴾

۴۶۔ جنہیں اس بات کا خیال رہتا ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

تشریح کلمات

اسۡتَعِیۡنُوۡا: (ع و ن) استعانت۔ مدد لینا۔

الصَّبۡرِ:

(ص ب ر) مشقت کے باوجود باز رہنا۔ شرعی اصطلاح میں اپنے نفس کو عقل اور شریعت کے تقاضوں کے مطابق قابو میں رکھنا۔

خشوع:

(خ ش ع) فروتنی، عاجزی۔ اکثر کے نزدیک بیرونی اعضا و جوارح کی فروتنی خشوع کہلاتی ہے۔ یاد رہے کہ خشوع جب دل میں ہو گا تو اعضائے ظاہری میں ضرور نمایاں ہو گا۔

یَظُنُّوۡنَ:

(ظ ن ن) ظن، گمان یعنی کسی خبر کے مثبت اور منفی پہلوؤں میں سے کسی ایک کو ترجیح دینا جب کہ دوسری طرف کا احتمال باقی ہو۔ اگر دوسری طرف کا احتمال باقی نہ رہے تو اسے علم اور یقین کہتے ہیں۔ یہ لفظ کبھی یقین کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے: وَّ ظَنَّ اَنَّہُ الۡفِرَاقُ ۔ {۷۵ قیامۃ: ۲۸۔ اور وہ سمجھ جائے گا کہ اس کی جدائی کا لمحہ آ گیا ہے}

رجوع:

(ر ج ع)اپنی سابقہ حالت کی طرف پلٹنا۔

تفسیرآیات

استعانت کے حکم سے دو تصور سامنے آتے ہیں:

۱۔ انسان ہمیشہ دشمن کے حملے کی زد میں ہے۔

۲۔ انسان بذات خود کمزور اور ناتواں ہے۔

صبر،عاجزی اور بے بسی نہیں بلکہ مشکلات اور شدائد کا مقابلہ کرنے کی ایک معنوی اور روحانی طاقت کا نام ہے۔ اسلام روزے اور دوسرے احکام کے ذریعے صبر کی تربیت دیتا ہے۔ بعض مفسرین نے صبر سے مراد روزہ لیا ہے۔ لیکن صبر صرف روزے میں منحصر نہیں،بلکہ روزہ تو صبر کے مصادیق میں سے ایک مصداق اور اس کے تربیتی مراحل میں سے ایک مرحلہ ہے۔

علل و اسباب کی دنیا میں انسان کو گونا گوں حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کبھی اسے کامیابی حاصل ہوتی ہے اورکبھی ناکامی سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ چنانچہ وہ فطری طو رپر کامیابی کے وقت خوش اور ناکامی کی صورت میں غمگین ہوتا ہے۔

لیکن اگر انسان مضبوط شخصیت کا مالک ہو تو وہ خوشی کی حالت میں آپے سے باہر نہیں ہوتااور ناکامی کی حالت میں بدحواس نہیں ہوتا۔ قرآن اس قسم کی مضبوط اور آہنی شخصیت کی اس طرح مدح سرائی کرتا ہے :

لِّکَیۡلَا تَاۡسَوۡا عَلٰی مَا فَاتَکُمۡ وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰىکُمۡ {۵۷ حدید : ۲۳}

تاکہ جو چیز تم لوگوں کے ہاتھ سے چلی جائے اس پر تم رنجیدہ نہ ہو اور جو چیز تم لوگوں کو عطا ہو اس پر اترایا نہ کرو۔

شخصیات کو فقیری و امیری، تنگدستی و خوشحالی، مرض و صحت اور محبت و عداوت کے متضاد آئینوں میں ہی پہچاناجاتا ہے۔ مدتوں کے بچھڑے ہوئے محبوب سے وصال ہوتا ہے تو زندگی جنت نعیم بن جاتی ہے اور فراق کی صورت میں عذاب جحیم :

اِنَّ الۡاِنۡسَانَ خُلِقَ ہَلُوۡعًا اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوۡعًا وَّ اِذَا مَسَّہُ الۡخَیۡرُ مَنُوۡعًا اِلَّا الۡمُصَلِّیۡنَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَلٰی صَلَاتِہِمۡ دَآئِمُوۡنَ {۷۰ معارج: ۱۹ تا۲۳}

انسان یقینا کم حوصلہ خلق ہوا ہے، جب اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے اور جب اسے آسائش حاصل ہوتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔ سوائے نماز گزاروں کے جو اپنی نماز کی ہمیشہ پابندی کرتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گردش روزگار نمازی کی مضبوط اور آہنی شخصیت پر اثرا نداز نہیں ہو سکتی۔ نماز انسان کو اس لا محدود طاقت سے وابستہ کر دیتی ہے جو تمام طاقتوں کی سر چشمہ ہے۔ا نسان نمازی بن جانے کے بعد چٹان کی طرح مضبوط اور سمندر کی طرح بیکراں ہو جاتا ہے۔

خدا اپنے حبیب کو نماز ہی کے ذریعے آنے والے مصائب و مشکلات کامقابلہ کر نے کے لیے آمادہ کرتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الۡمُزَّمِّلُ قُمِ الَّیۡلَ اِلَّا قَلِیۡلًا اِلَّا قَلِیۡلًانِّصۡفَہٗۤ اَوِ انۡقُصۡ مِنۡہُ قَلِیۡلًا اَوۡ زِدۡ عَلَیۡہِ وَ رَتِّلِ الۡقُرۡاٰنَ تَرۡتِیۡلًااِنَّا سَنُلۡقِیۡ عَلَیۡکَ قَوۡلًا ثَقِیۡلًا {۷۳ مزمل : ۱ تا ۵}

اے کپڑوں میں لپٹنے والے۔ رات کو اٹھا کیجیے مگر کم، آدھی رات یا اس سے کچھ کم کر لیجیے یا اس پر کچھ بڑھا دیجیے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کیجیے۔ عنقریب آپ پر ہم ایک بھاری حکم (کا بوجھ) ڈالنے والے ہیں

رات کی نمازوں اورتلاوت قرآن کے ذریعے رسالت کے بار گراں کو اٹھانے کی تیاری کا حکم ہے۔

اِنَّہَا لَکَبِیۡرَۃٌ اِلَّا عَلَی الۡخٰشِعِیۡنَ: خشوع نہ رکھنے والوں، ذوق عبادت نہ رکھنے والوں اور دل سے عبادت بجا نہ لانے والوں پر یہ نماز بارگراں ہے۔ جب کہ خشوع رکھنے والے نماز سے جو لذت اور سکون قلب حاصل کرتے ہیں وہ کسی اور چیز سے حاصل نہیں کر سکتے۔

بعض روایات کے مطابق خاشعین سے مراد رسول خدا(ص) اور حضرت علی (ع) ہیں۔ {المیزان ۱: ۱۵۳} لفظ عمومیت رکھتا ہے اور اگرچہ تمام خاشعین کو اصولاً شامل ہے۔ تاہم اس کے مصداق کے اولین افراد محمد (ص) و علی (ع) ہیں۔ یا یوں کہنا چاہیے کہ لفظ اگرچہ عمومیت رکھتا ہے، لیکن اس لفظ کو محمد (ص) و علی (ع) کی طرح کوئی حقیقی مصداق میسر نہیں ہوا۔

الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ {۲ بقرہ : ۴۶} مفسرین لکھتے ہیں کہ یہاں ظن سے مراد یقین ہے۔ اگرچہ رب کی ملاقات کا گمان بھی باعث خشوع ہوتا ہے، لیکن اگر یقین حاصل ہو تو یہ خشوع بطریق اولی دو چند ہو گا۔

احادیث

الَّذِیۡنَ یَظُنُّوۡنَ اَنَّہُمۡ مُّلٰقُوۡا رَبِّہِمۡ میں موجود یَظُنُّوۡنَ کی وضاحت میں امام علی علیہ السلام سے مروی ہے :

یُوۡقِنُوۡنَ اَنَّہُمْ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ وَ الظَّنَّ مِنْہُمْ یَّقِیۡنٍ ۔ { المیزان ۱ : ۱۵۳۔ تفسیر العیاشی ۱ : ۴۴۔ بحار الانوار ۷ : ۴۲ باب ۳ از باب اثبات الحشر و کیفیتہ و کفرہ ۔}

انہیں اپنے رب سے ملاقات کا یقین ہوتا ہے۔

کافی میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے :

کَانَ عَلِیٌّ اِذَا ھَالَہُ شیء فَزِعَ اِلی الصَّلٰوَۃِ ثُمَّ تَلَا ھِذِہِ الْآیَۃَ: وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ ۔ {اصول الکافی ۳ : ۴۸۰}

حضرت علی علیہ السلام کو جب کوئی پریشانی لاحق ہوتی تو اٹھ کر نماز پڑھ لیتے اور اس آیت: وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَ الصَّلٰوۃِ کی تلاوت کرتے تھے۔

من لا یحضرہ الفقیہ میں حضرت امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

الصَّبْرُ الصِّیَامُ وَ قال اِذَا نَزَلَتْ بِالرَّجُلِ النَّازِلَۃُ و الشَّدِیْدَۃُ فَلْیَصُمْ فِاِنَّ اللّٰہَ عز و جل یَقُوْلُ: وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ یعنی الصیام۔ {اصول الکافی ۴ : ۶۳}

صبر سے مراد روزہ ہے۔ جب کسی آدمی پر برا وقت آجائے تو وہ روزہ رکھ لے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ ۔

اہم نکات

۱۔ عاجزی کا نام صبر نہیں، بلکہ مشکلات و شدائد کا مقابلہ کر نے کی معنوی اور روحانی طاقت کا نام صبر ہے۔

۲۔ مشکلات کے موقع پر صبر اور نماز سے مدد لینی چاہیے۔

۳۔ نماز انسان کو اللہ کی لا محدود طاقت سے وابستہ کردیتی ہے۔

۴۔ استعانت کے حکم سے انسان کی ناتوانی کا پتہ چلتا ہے۔

۵۔ مشکلات اور شدائد میں انسانی شخصیت کی پہچان ہوتی ہے۔

تحقیق مزید: الکافی۳ : ۴۸۰۔ ۴ : ۶۳۔ الفقیہ ۳: ۷۶ الوسائل ۸ : ۱۳۸۔


آیات 45 - 46