اِنَّ لِلۡمُتَّقِیۡنَ مَفَازًا ﴿ۙ۳۱﴾

۳۱۔ تقویٰ والوں کے لیے یقینا کامیابی ہے۔

31۔ متقی وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا میں اس عقیدے کے ساتھ زندگی گزاری کہ انہیں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔

حَدَآئِقَ وَ اَعۡنَابًا ﴿ۙ۳۲﴾

۳۲۔ باغات اور انگور ہیں،

وَّکَوَاعِبَ اَتۡرَابًا ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ اور نوخیز ہم سن بیویاں ہیں،

وَّ کَاۡسًا دِہَاقًا ﴿ؕ۳۴﴾

۳۴۔ اور چھلکتے جام ہیں۔

لَا یَسۡمَعُوۡنَ فِیۡہَا لَغۡوًا وَّ لَا کِذّٰبًا ﴿ۚ۳۵﴾

۳۵۔ وہ وہاں لغو اور جھوٹی بات نہیں سنیں گے۔

35۔ بیہودہ گفتگو اور جھوٹ بولنا انسان کے لیے ایک قسم کا عار و ننگ اوربری خصلت ہے۔ جنت کے رہنے والے اعلیٰ قدروں کے مالک ہوں گے۔ وہ اس بری خصلت سے پاک ہوں گے۔

جَزَآءً مِّنۡ رَّبِّکَ عَطَآءً حِسَابًا ﴿ۙ۳۶﴾

۳۶۔ عنایت کے طور پر آپ کے رب کی طرف سے، جو کافی جزا ہو گی،

رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا الرَّحۡمٰنِ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مِنۡہُ خِطَابًا ﴿ۚ۳۷﴾

۳۷۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان میں ہے، سب کے رب رحمن کی طرف سے، جس کے سامنے کسی کو بولنے کا اختیار نہیں ہو گا۔

یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا﴿۳۸﴾

۳۸۔ اس روز روح اور فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے اور کوئی بات نہیں کر سکے گا سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور جو درست بات کرے۔

38۔ شفاعت کے لیے دو شرطوں کا ذکر ہے: اول یہ کہ اللہ کی طرف سے اجازت ہو۔ دوم یہ کہ درست بات کرے۔ ممکن ہے اس سے مراد یہ ہو کہ شفاعت کے لیے اہل لوگوں سے شفاعت کی درخواست کرے۔

الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ : اس جگہ الرُّوۡحُ سے مراد اہل سنت کی روایت کے مطابق اللہ کے لشکروں میں سے ایک لشکر ہے۔ اہل بیت علیہ السلام کی روایت کے مطابق ایک ایسا عظیم المنزلت فرشتہ ہے، جو جبرئیل اور میکائیل سے بھی عظیم تر ہے۔ جو ہمیشہ رسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ ہوتا تھا۔ (تفسیر قمی)

ذٰلِکَ الۡیَوۡمُ الۡحَقُّ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ مَاٰبًا﴿۳۹﴾

۳۹۔ یہ ہے وہ برحق روز، پس جو چاہتا ہے وہ اپنے رب کے پاس منزل بنا لے۔

39۔ یہ ہے وہ برحق روز جس میں ہمیشہ کی زندگی کا فیصلہ ہونا ہے۔ اگر کوئی عاقل اس سلسلے میں اپنی عقل سے کام لیتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس دنیا کی زندگی میں فرصت ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے اپنے رب کے پاس اپنا مقام بنا لے۔

اِنَّاۤ اَنۡذَرۡنٰکُمۡ عَذَابًا قَرِیۡبًا ۬ۚۖ یَّوۡمَ یَنۡظُرُ الۡمَرۡءُ مَا قَدَّمَتۡ یَدٰہُ وَ یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا﴿٪۴۰﴾

۴۰۔ ہم نے تمہیں قریب آنے والے عذاب کے بارے میں تنبیہ کی ہے، اس روز انسان ان تمام اعمال کو دیکھ لے گا جو وہ اپنے ہاتھوں آگے بھیج چکا ہے اور کافر کہ اٹھے گا: اے کاش! میں خاک ہوتا۔

40۔ جو کچھ اس نے دنیا میں کیا ہے وہ اسے حاضر پائے گا۔ وہ گناہ کی لذت بھول چکا ہو گا اور حساب دینا باقی ہو گا۔ اپنے نامہ اعمال میں گناہوں کا حجم دیکھ کر وہ کہ اٹھے گا: کاش میں مکلف (ذمہ دار) انسان ہونے کی بجائے مٹی ہوتا۔