آیات 37 - 38
 

رَّبِّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا الرَّحۡمٰنِ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مِنۡہُ خِطَابًا ﴿ۚ۳۷﴾

۳۷۔ جو کچھ آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان میں ہے، سب کے رب رحمن کی طرف سے، جس کے سامنے کسی کو بولنے کا اختیار نہیں ہو گا۔

یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ صَفًّا ؕ٭ۙ لَّا یَتَکَلَّمُوۡنَ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا﴿۳۸﴾

۳۸۔ اس روز روح اور فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے اور کوئی بات نہیں کر سکے گا سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور جو درست بات کرے۔

تفسیر آیات

۱۔ رَّبِّ السَّمٰوٰتِ: بیان ہے سابقہ آیت میں موجود رَبَّکَ کا۔ یعنی یہ ’’عطائے کافی‘‘ آپ کے اس رب کی ہو گی جو آپ کا ہی نہیں کل کائنات کا رب ہے۔ الرَّحْمٰنُ یہی رب رحمن ہے جس کی رحمت تمام مخلوقات کا احاطہ کیے ہوئے ہے جس طرح ربوبیت سب کا احاطہ کرتی ہے۔

۲۔ لَا یَمۡلِکُوۡنَ مِنۡہُ: آسمانوں اور زمینوں کے رہنے والوں میں سے کسی کو قیامت کے دن اس کے سامنے بولنے کا اختیار نہ ہو گا یعنی از خود اختیار نہ ہو گا۔

۳۔ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الرُّوۡحُ: روح سے مراد روح الامین جبرئیل لینا زیادہ مناسب ہے چونکہ قرآن میں جبرئیل کا ذکر دیگر ملائکہ کے ساتھ کیا ہے۔ جب جبرئیل اور فرشتے اللہ کا اذن شفاعت ملنے کے انتظار میں صف بستہ کھڑے ہوں گے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتے شفاعت کے خواہاں ہوں گے۔ آخر میں فرشتوں کو اجازت مل جائے گی۔

۴۔ لَا یَمۡلِکُوۡنَ: شفاعت کی بات کرنے کا حق فرشتوں میں سے اسے حاصل ہو گا جسے اللہ شفاعت کا اذن دے دے۔

۵۔ وَ قَالَ صَوَابًا: شفاعت کی اجازت اسے ملے گی جو درست بات کرے۔ یعنی وہ جس کی شفاعت کی درخواست کرے، وہ لائق شفاعت ہو۔ جیسے فرمایا:

یَوۡمَئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَۃُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَہُ الرَّحۡمٰنُ وَ رَضِیَ لَہٗ قَوۡلًا﴿﴾ (۲۰ طہ: ۱۰۹)

اس روز شفاعت کسی کو فائدہ نہ دے گی سوائے اس کے جسے رحمن اجازت دے اور اس کی بات کو پسند کرے۔


آیات 37 - 38