فَوَقٰہُمُ اللّٰہُ شَرَّ ذٰلِکَ الۡیَوۡمِ وَ لَقّٰہُمۡ نَضۡرَۃً وَّ سُرُوۡرًا ﴿ۚ۱۱﴾

۱۱۔ پس اللہ انہیں اس دن کے شر سے محفوظ رکھے گا اور انہیں شادابی اور مسرت عنایت فرمائے گا۔

11۔ دوسری جگہ اہل جنت کے بارے میں فرمایا: تَعۡرِفُ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ نَضۡرَۃَ النَّعِیۡمِ (مطففین:24) ان کے چہروں پر نعمت کی شادابی عیاں ہو گی۔

وَ جَزٰىہُمۡ بِمَا صَبَرُوۡا جَنَّۃً وَّ حَرِیۡرًا ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ اور ان کے صبر کے عوض انہیں جنت اور ریشمی لباس عنایت فرمائے گا۔

مُّتَّکِـِٕیۡنَ فِیۡہَا عَلَی الۡاَرَآئِکِ ۚ لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّ لَا زَمۡہَرِیۡرًا ﴿ۚ۱۳﴾

۱۳۔ وہ اس (جنت) میں مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے جس میں نہ دھوپ کی گرمی دیکھنے کا اتفاق ہو گا اور نہ سردی کی شدت۔

وَ دَانِیَۃً عَلَیۡہِمۡ ظِلٰلُہَا وَ ذُلِّلَتۡ قُطُوۡفُہَا تَذۡلِیۡلًا﴿۱۴﴾

۱۴۔ اور درخت ان پر سایہ فگن ہوں گے اور پھلوں (کے گچھے) ان کی دسترس میں ہوں گے۔

وَ یُطَافُ عَلَیۡہِمۡ بِاٰنِیَۃٍ مِّنۡ فِضَّۃٍ وَّ اَکۡوَابٍ کَانَتۡ قَؔوَارِیۡرَا۠ ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ اور ان کے لیے چاندی کے برتنوں اور بلوریں پیالوں کے دور چلیں گے۔

قَؔ‍وَارِیۡرَا۠ مِنۡ فِضَّۃٍ قَدَّرُوۡہَا تَقۡدِیۡرًا﴿۱۶﴾

۱۶۔ شیشے بھی چاندی کے ہوں گے جنہیں (ساقی نے) ایک مناسب مقدار میں بھرا ہو گا۔

وَ یُسۡقَوۡنَ فِیۡہَا کَاۡسًا کَانَ مِزَاجُہَا زَنۡجَبِیۡلًا ﴿ۚ۱۷﴾

۱۷۔ اور وہاں انہیں ایک ایسا جام پلایا جائے گا جس میں زنجبیل (سونٹھ) کی آمیزش ہو گی۔

عَیۡنًا فِیۡہَا تُسَمّٰی سَلۡسَبِیۡلًا﴿۱۸﴾

۱۸۔ جنت میں ایک ایسے چشمے سے جسے سلسبیل کہا جاتا ہے۔

وَ یَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ ۚ اِذَا رَاَیۡتَہُمۡ حَسِبۡتَہُمۡ لُؤۡلُؤًا مَّنۡثُوۡرًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور (خدمت کے لیے) ان کے گرد ایسے لڑکے پھر رہے ہوں گے جو ہمیشہ رہنے والے ہیں، آپ انہیں دیکھیں تو بکھرے ہوئے موتی خیال کریں گے۔

وَ اِذَا رَاَیۡتَ ثَمَّ رَاَیۡتَ نَعِیۡمًا وَّ مُلۡکًا کَبِیۡرًا﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور آپ جہاں بھی نگاہ ڈالیں گے بڑی نعمت اور عظیم سلطنت نظر آئے گی۔

20۔ یہ عظیم سلطنت اس ایثار و قربانی کے صلے میں مل رہی ہے جس کا مظاہرہ اہل بیت اطہار علیہ السلام نے کیا۔ یعنی محرومیت کے عالم میں بھی جود و سخا، ناداری میں بھی دارائی، فقر و تنگدستی میں فیاضی۔ چنانچہ ذات فیاض کو یہ فیاضی پسند آئی۔

فریقین کے مصادر میں یہ روایت متعدد طرق سے حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ یہ آیات اہل بیت اطہار علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئیں۔ جب حسنین علیہم السلام بیمار ہوئے تو ان کی شفا کے لیے تین دن روزے رکھنے کی نذر مانی گئی۔ چنانچہ حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا اور ان کی خادمہ فضہ نے نذر کے روزے رکھے۔ افطاری کے وقت پہلے دن مسکین، دوسرے دن یتیم اور تیسرے دن قیدی سائل نے سوال کیا۔ آل رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سارا کھانا برائے رضائے خدا انہیں دے دیا، صرف پانی سے افطار کر کے فاقے سے رہے۔ ملاحظہ ہو تفسیر کشاف، الدر المنثور، غایۃ المرام۔

بعض اہل قلم کے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ اہل بیت علیہ السلام خود بھوکے رہیں اور پانچ افراد کا کھانا صرف ایک مسکین کو دے دیں، جبکہ آیت میں یہ مذکور نہیں ہے کہ سائل صرف ایک شخص تھا۔ چنانچہ یَّتِیۡمًا ذَا مَقۡرَبَۃٍ ﴿﴾اَوۡ مِسۡکِیۡنًا ذَا مَتۡرَبَۃٍ (بلد:15 ۔ 16) میں اطلاق ہے جو ایک یا ایک سے زیادہ پر صادق آتا ہے۔ ایک روایت میں اس کا جواب یہ ہے کہ اہل بیت علیہ السلام کھانے پر بیٹھے تھے، ایک مسکین آیا، ایک تہائی اسے دے دیا، پھر بلا فاصلہ ایک یتیم آیا، دوسرا ایک تہائی اسے دیا دیا۔ اس کے بعد ایک اسیر آیا تو تیسرا ایک تہائی اسے دے دیا۔ (زبدۃ التفاسیر)

ان کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ مدینہ طیبہ میں یہ بات ممکن نہ تھی کہ کوئی قیدی بھیک مانگنے کے لیے نکلتا، کیونکہ قیدی کے لیے طعام و لباس کا انتظام حکومت کے ذمے تھا۔ اس کا جواب وہ خود اسی آیت کے ذیل میں دیتے ہیں: اس آیت میں قیدی سے مراد ہر وہ شخص ہے جو قید میں ہو، خواہ وہ کافر ہو یا مسلمان، خواہ جنگی قیدی ہو یا کسی اور جرم میں قید کیا گیا ہو نیز خواہ اسے قید کی حالت میں کھانا دیا جاتا ہو یا اس سے بھیک منگوائی جاتی ہو۔ (تفہیم القرآن 6: 181)