عٰلِیَہُمۡ ثِیَابُ سُنۡدُسٍ خُضۡرٌ وَّ اِسۡتَبۡرَقٌ ۫ وَّ حُلُّوۡۤا اَسَاوِرَ مِنۡ فِضَّۃٍ ۚ وَ سَقٰہُمۡ رَبُّہُمۡ شَرَابًا طَہُوۡرًا﴿۲۱﴾

۲۱۔ ان کے اوپر سبز دیباج اور اطلس کے کپڑے ہوں گے، انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا رب انہیں پاکیزہ مشروب پلائے گا۔

اِنَّ ہٰذَا کَانَ لَکُمۡ جَزَآءً وَّ کَانَ سَعۡیُکُمۡ مَّشۡکُوۡرًا﴿٪۲۲﴾

۲۲۔ یقینا یہ تمہارے لیے جزا ہے اور تمہاری یہ محنت قابل قدر ہے۔

اِنَّا نَحۡنُ نَزَّلۡنَا عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ تَنۡزِیۡلًا ﴿ۚ۲۳﴾

۲۳۔ یقینا ہم نے ہی آپ پر قرآن نازل کیا ہے جیسا کہ نازل کرنے کا حق ہے۔

فَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَ لَا تُطِعۡ مِنۡہُمۡ اٰثِمًا اَوۡ کَفُوۡرًا ﴿ۚ۲۴﴾

۲۴۔ لہٰذا آپ اپنے رب کے حکم پر صبر کریں اور ان میں سے کسی گنہگار یا کافر کی بات نہ مانیں۔

24۔ کہتے ہیں اٰثِمًا گناہگار سے مراد عتبہ اور کَفُوۡرًا سے مراد ولید ہے۔ ان کی سرتوڑ کوشش تھی کہ کسی بھی قیمت پر محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس مشن کو ترک کر دیں۔

وَ اذۡکُرِ اسۡمَ رَبِّکَ بُکۡرَۃً وَّ اَصِیۡلًا ﴿ۖۚ۲۵﴾

۲۵۔ اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریں۔

وَ مِنَ الَّیۡلِ فَاسۡجُدۡ لَہٗ وَ سَبِّحۡہُ لَیۡلًا طَوِیۡلًا﴿۲۶﴾

۲۶۔ اور رات کے ایک حصے میں اس کے سامنے سجدہ ریز ہو جایا کریں اور رات کو دیر تک تسبیح کرتے رہا کریں۔

26۔ رات کو دیر تک تسبیح کرنے سے مراد تہجد ہے۔

اِنَّ ہٰۤؤُلَآءِ یُحِبُّوۡنَ الۡعَاجِلَۃَ وَ یَذَرُوۡنَ وَرَآءَہُمۡ یَوۡمًا ثَقِیۡلًا﴿۲۷﴾

۲۷۔ یہ لوگ یقینا عجلت (دنیا) پسند ہیں اور اپنے پیچھے ایک بہت سنگین دن کو نظر انداز کیے بیٹھے ہیں۔

27۔ سطحی سوچ رکھنے والے صرف سامنے کی باتوں کو سمجھ سکتے ہیں اور اپنے مستقبل کو تاریک سے تاریک تر کر دیتے ہیں۔

نَحۡنُ خَلَقۡنٰہُمۡ وَ شَدَدۡنَاۤ اَسۡرَہُمۡ ۚ وَ اِذَا شِئۡنَا بَدَّلۡنَاۤ اَمۡثَالَہُمۡ تَبۡدِیۡلًا﴿۲۸﴾

۲۸۔ ہم نے انہیں پیدا کیا اور ان کے جوڑ مضبوط کیے اور جب ہم چاہیں ان کے بدلے ان جیسے اور لوگ لے آئیں۔

28۔ دوسرا ترجمہ یہ ہو سکتا ہے: جب ہم چاہیں گے ان کی امثال و اشباہ کو تبدیل کر دیں گے۔ یعنی قیامت کی طرف اشارہ ہے۔

اِنَّ ہٰذِہٖ تَذۡکِرَۃٌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا﴿۲۹﴾

۲۹۔ یہ ایک نصیحت ہے پس جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرے۔

29۔ یہ قرآن ایک نصیحت ہے، جَبر نہیں ہے۔ اس نصیحت کے سننے کے بعد جو چاہے اپنے رب کی طرف اور جو چاہے آتش کی طرف جانے کا راستہ اختیار کرے۔

وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿٭ۖ۳۰﴾

۳۰۔ اور تم نہیں چاہتے ہو مگر وہ جو اللہ چاہتا ہے، یقینا اللہ بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔

30۔ قطب الدین راوندی نے الخرائج و الجرائح ا:458 میں لکھا ہے: حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف نے کامل بن ابراہیم مدنی سے فرمایا: جئت تسأل عن مقالۃ المفوضۃ کذبوا بل قلوبنا اوعیۃ لمشیۃ اللہ عز و جل فاذا شاء شئنا۔ و اللہ یقول: وَ مَا تَشَآءُوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ ۔ تو مجھ سے مفوضۃ کے نظریہ کے بارے میں پوچھنے آیا ہے۔ وہ جھوٹ بولتے ہیں، بلکہ ہمارے قلوب اللہ کی مشیت کی جگہ ہیں۔ جب اللہ چاہتا ہے تو ہم چاہتے ہیں۔ پھر آیت کی تلاوت فرمائی۔

اس فرمان سے آیت کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے کہ بندے کی مشیت اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔ اذا شاء شئنا جب اللہ چاہتا ہے تو ہم چاہتے ہیں۔ یعنی ائمہ علیہم السلام کی عصمت ثابت ہوتی ہے۔ ورنہ غیر معصوم کی مشیت کبھی اللہ کی مشیت سے متصادم ہوتی ہے۔