آیت 13
 

مُّتَّکِـِٕیۡنَ فِیۡہَا عَلَی الۡاَرَآئِکِ ۚ لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّ لَا زَمۡہَرِیۡرًا ﴿ۚ۱۳﴾

۱۳۔ وہ اس (جنت) میں مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے جس میں نہ دھوپ کی گرمی دیکھنے کا اتفاق ہو گا اور نہ سردی کی شدت۔

تفسیر آیات

۱۔ مسندوں پر تکیہ لگائے بیٹھنے کی تعبیر میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جنت کی زندگی آرام اور آسائش کی زندگی ہو گی۔ دنیا کی زندگی کی طرح کسی مسئلہ کے حل کے لیے دوڑ دھوپ کرنا نہیں پڑے گی۔

لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا: جنت کے موسم کا ذکر ہے کہ ایک معتدل ہوا ہو گی۔ نہ گرمی کی اذیت ہو گی، نہ سردی کی۔ اس آیت کے ذیل میں تفسیر روح المعانی میں آلوسی نے ذکر کیا ہے۔ ابن عباس سے روایت ہے:

بینا اھل الجنۃ فی الجنۃ اذ رأوا ضوئً کظوء الشمس وقد اشرقت الجنان بہ، فیقول اھل الجنۃ: یا رضوان ما ھذا؟ و قد قال ربنا: لَا یَرَوۡنَ فِیۡہَا شَمۡسًا وَّ لَا زَمۡہَرِیۡرًا فیقول لہم رضوان لیس ھذا بشمس ولا قمر ولکن علی و فاطمۃ رضی اللہ عنہما ضحکا فاشرقت الجنان من نور ثغریہما۔

اہل جنت، جنت میں ہوں گے۔ اس اثنا میں وہ سورج کی روشنی کی طرح کی ایک روشنی دیکھیں گے جس سے جنت روشن ہو گئی ہو گی، اہل جنت رضوان سے پوچھیں گے: اے رضوان! یہ روشنی کیا ہے؟ ہمارے پروردگار نے تو فرمایا تھا: نہ دھوپ کی گرمی دیکھنے کا اتفاق ہو گا اور نہ سردی کی شدت تو رضوان ان سے کہے گا: یہ سورج کی روشنی نہیں ہے، نہ چاند کی روشنی ہے بلکہ علی اور فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما مسکرائے ہیں ان کے دانتوں کی روشنی سے جنت روشن ہو گئی ہے۔


آیت 13