وَ ذَرۡنِیۡ وَ الۡمُکَذِّبِیۡنَ اُولِی النَّعۡمَۃِ وَ مَہِّلۡہُمۡ قَلِیۡلًا﴿۱۱﴾

۱۱۔ ان جھٹلانے والوں اور نعمتوں پر ناز کرنے والوں کو مجھ پر چھوڑ دیجئے اور انہیں تھوڑی مہلت دے دیجئے۔

11۔ ان مُکَذِّبِیۡنَ کو مجھ پر چھوڑ دیجیے۔ اس میں رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لیے خوشخبری اور مشرکین کے انجام بد کی پیشگوئی ہے اور ساتھ یہ حکم مل رہا ہے کہ انہیں تھوڑی مہلت دیجیے۔ یعنی رسول کریم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حکم مل رہا ہے آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مہلت دیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ اللہ مہلت دے گا۔ اس میں ایک تقویت اور تسلی ہے کہ آپ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غالب آنے والے ہیں۔ مہلت دینا آپ کے ہاتھ میں ہے۔

اِنَّ لَدَیۡنَاۤ اَنۡکَالًا وَّ جَحِیۡمًا ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ یقینا ہمارے پاس (ان کے لیے) بیڑیاں ہیں اور سلگتی آگ ہے۔

وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿٭۱۳﴾

۱۳۔اور حلق میں پھنسنے والا کھانا ہے اور دردناک عذاب ہے۔

یَوۡمَ تَرۡجُفُ الۡاَرۡضُ وَ الۡجِبَالُ وَ کَانَتِ الۡجِبَالُ کَثِیۡبًا مَّہِیۡلًا﴿۱۴﴾

۱۴۔ جس دن زمین اور پہاڑ کانپنے لگیں گے اور پہاڑ بہتی ریت کی مانند ہو جائیں گے۔

اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا ۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا ﴿ؕ۱۵﴾

۱۵۔ (اے لوگو) ہم نے تمہاری طرف ایک رسول تم پر گواہ بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف ایک رسول بھیجا تھا۔

15۔ اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ جس طرح فرعون پر موسیٰ غالب آیا تھا، اسی طرح ہمارا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تم پر غالب آنے والا ہے۔ یہ بات ہوئی دنیا کی کہ تمہیں دنیا میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ : تم پر گواہ بنا کر۔ اس میں آخرت کی رسوائی کی طرف اشارہ ہے کہ ہمارا رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم دنیا میں تمہیں شکست سے اور آخرت میں رسوائی سے دو چار کرے گا۔

فَعَصٰی فِرۡعَوۡنُ الرَّسُوۡلَ فَاَخَذۡنٰہُ اَخۡذًا وَّبِیۡلًا﴿۱۶﴾

۱۶۔ پھر فرعون نے اس رسول کی نافرمانی کی تو ہم نے اسے سختی سے گرفت میں لے لیا۔

فَکَیۡفَ تَتَّقُوۡنَ اِنۡ کَفَرۡتُمۡ یَوۡمًا یَّجۡعَلُ الۡوِلۡدَانَ شِیۡبَۨا﴿٭ۖ۱۷﴾

۱۷۔ اگر تم نے انکار کیا تو اس دن سے کیسے بچو گے جو بچوں کو بوڑھا بنا دے گا؟

17۔تم نے کفر اختیار کیا تو دنیا میں فرعونیوں کی طرح سزا بھگتو گے اور آخرت کے دن ایسے مراحل سے گزرنا پڑے گا کہ جس کے نتیجے میں ایک ہی دن میں بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔

السَّمَآءُ مُنۡفَطِرٌۢ بِہٖ ؕ کَانَ وَعۡدُہٗ مَفۡعُوۡلًا﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور (اس دن) آسمان اس سے پھٹ جائے گا، اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا۔

اِنَّ ہٰذِہٖ تَذۡکِرَۃٌ ۚ فَمَنۡ شَآءَ اتَّخَذَ اِلٰی رَبِّہٖ سَبِیۡلًا﴿٪۱۹﴾

۱۹۔ یہ ایک نصیحت ہے، پس جو چاہے اپنے رب کی طرف جانے کا راستہ اختیار کر لے۔

اِنَّ رَبَّکَ یَعۡلَمُ اَنَّکَ تَقُوۡمُ اَدۡنٰی مِنۡ ثُلُثَیِ الَّیۡلِ وَ نِصۡفَہٗ وَ ثُلُثَہٗ وَ طَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیۡنَ مَعَکَ ؕ وَ اللّٰہُ یُقَدِّرُ الَّیۡلَ وَ النَّہَارَ ؕ عَلِمَ اَنۡ لَّنۡ تُحۡصُوۡہُ فَتَابَ عَلَیۡکُمۡ فَاقۡرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ ؕ عَلِمَ اَنۡ سَیَکُوۡنُ مِنۡکُمۡ مَّرۡضٰی ۙ وَ اٰخَرُوۡنَ یَضۡرِبُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ یَبۡتَغُوۡنَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰہِ ۙ وَ اٰخَرُوۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۫ۖ فَاقۡرَءُوۡا مَا تَیَسَّرَ مِنۡہُ ۙ وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَقۡرِضُوا اللّٰہَ قَرۡضًا حَسَنًا ؕ وَ مَا تُقَدِّمُوۡا لِاَنۡفُسِکُمۡ مِّنۡ خَیۡرٍ تَجِدُوۡہُ عِنۡدَ اللّٰہِ ہُوَ خَیۡرًا وَّ اَعۡظَمَ اَجۡرًا ؕ وَ اسۡتَغۡفِرُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿٪۲۰﴾

۲۰۔ آپ کا رب جانتا ہے کہ آپ دو تہائی رات کے قریب یا آدھی رات یا ایک تہائی رات (تہجد کے لیے) کھڑے رہتے ہیں اور آپ کے ساتھ ایک جماعت بھی (کھڑی رہتی ہے) اور اللہ رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے، اسے علم ہے کہ تم احاطہ نہیں کر سکتے ہو پس اللہ نے تم پر مہربانی کی لہٰذا تم جتنا آسانی سے قرآن پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو، اسے علم ہے کہ عنقریب تم میں سے کچھ لوگ مریض ہوں گے اور کچھ لوگ زمین میں اللہ کے فضل (روزی) کی تلاش میں سفر کرتے ہیں اور کچھ راہ خدا میں لڑتے ہیں، لہٰذا آسانی سے جتنا قرآن پڑھ سکتے ہو پڑھ لیا کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور اللہ کو قرض حسنہ دو اور جو نیکی تم اپنے لیے آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں بہتر اور ثواب میں عظیم تر پاؤ گے اور اللہ سے مغفرت طلب کرو، اللہ یقینا بڑا بخشنے والا، رحیم ہے۔

20۔ شروع میں آدھی رات یا اس سے کمتر یا بیشتر تہجد کا حکم تھا۔ اس آیت میں اصل حکم کو منسوخ کیے بغیر تہجد کے بارے میں تخفیف کی گئی ہے۔ تخفیف کا یہ حکم ممکن ہے مدینہ میں نازل ہوا ہو، کیونکہ اس آیت میں زکوٰۃ اور قتال کا ذکر ہے اور ابتدائے دعوت مکہ میں نہ زکوٰۃ کا حکم نازل ہوا تھا، نہ قتال کا۔ لہٰذا زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ اس سورے کا آخری حصہ مدینہ میں نازل ہوا ہے۔ اس تخفیف کی وجوہات بیان فرمائیں کہ انسان مریض ہوتا ہے یا رزق حلال کی تلاش میں نکلتا ہے یا راہ خدا میں قتال میں مصروف ہوتا ہے تو آدھی رات کو عبادت کرنا میسر نہیں ہوتا۔ لہٰذا جس قدر قرآن پڑھنا ممکن ہے، پڑھ لیا کرے۔ انسان جو کچھ آگے بھیجتا ہے، یعنی راہ خدا میں جو خرچ کرتا ہے، وہ اسے اللہ کے ہاں موجود پائے گا اور آخرت میں انتہائی احتیاج کے وقت اللہ سے وصول کرے گا اور جو پیچھے چھوڑ جائے گا، وہ وارثوں کا مال ہو گا۔ اس کا اسے حساب تو دینا پڑے گا مگر اس کے کام نہ آئے گا۔