بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾

۱۔ اے چادر اوڑھنے والے،

قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾

۲۔اٹھیے اور تنبیہ کیجیے،

وَ رَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۳﴾

۳۔ اور اپنے رب کی کبریائی کا اعلان کیجیے

وَ ثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ ۪﴿ۙ۴﴾

۴۔ اور اپنے لباس کو پاک رکھیے

وَ الرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ ۪﴿ۙ۵﴾

۵۔ اور ناپاکی سے دور رہیے

وَ لَا تَمۡنُنۡ تَسۡتَکۡثِرُ ۪﴿ۙ۶﴾

۶۔ اور احسان نہ جتلا کہ (اپنے عمل کو) بہت سمجھنے لگ جائیں

وَ لِرَبِّکَ فَاصۡبِرۡ ؕ﴿۷﴾

۷۔ اور اپنے رب کی خاطر صبر کیجیے،

1 تا 7۔ ان دونوں سورتوں میں حالت تزمل اور حالت تدثر کے بعد قیام کا حکم آتا ہے۔ یعنی عزلت اور خلوت و راحت کا وقت ختم ہوا اور اب قیام کا وقت آ گیا ہے۔ قیام کو جن عناصر و ارکان پر مشتمل ہونا چاہیے، ان کا بھی ذکر آیا۔ وہ ہیں: i۔ انذار و تنبیہ: سب سے پہلے شرک و کفر سے لاحق ہونے والے خطرات سے تنبیہ۔ ii۔ تکبیر: اللہ کی کبریائی کا ذکر ہے کہ وہ اکبر من ان یوصف یعنی وصف و بیان کی حد سے بڑا ہے۔ iii۔تطہیر: لباس کی تطہیر۔ یعنی تمام مظاہر کی تطہیر۔ iv۔ ہجر: تمام ناپاکیوں سے دوری۔ v۔ عدم امتنان: لوگوں کو نجات کی راہ دکھانے پر احسان جتلا کر اپنے عمل کو کثیر تصور کرنا بندگی کے شایان شان نہیں ہے بلکہ یہ خود پسندی ہے۔ امامیہ مصادر میں حدیث ہے: المن یھدم الصَّنیعۃ ۔ (الکافی4: 22 باب المن) احسان جتلانے سے نیکی برباد ہو جاتی ہے۔ vi۔صبر: صبر و حوصلہ کے ساتھ رب کو خاطر میں رکھو تو مشکل آسان ہو جائے گی۔

فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوۡرِ ۙ﴿۸﴾

۸۔ اور جب صور میں پھونک ماری جائے گی،

فَذٰلِکَ یَوۡمَئِذٍ یَّوۡمٌ عَسِیۡرٌ ۙ﴿۹﴾

۹۔ تو وہ دن ایک مشکل دن ہو گا۔

عَلَی الۡکٰفِرِیۡنَ غَیۡرُ یَسِیۡرٍ﴿۱۰﴾

۱۰۔ وہ کفار پر آسان نہ ہو گا۔