آیت 18
 

وَّ اَنَّ الۡمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلَا تَدۡعُوۡا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ اور یہ کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو نہ پکارو۔

تفسیر آیات

بعض، مساجد سے مراد عبادت گاہیں لیتے ہیں اور بعض نے تو کہا ہے پوری زمین عبادت گاہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِداً وَ طَھُوراً۔۔۔۔ (الفقیہ ۱: ۲۴۰)

میرے لیے زمین کو جائے سجدہ اور پاک کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔

ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی روایت کے مطابق الۡمَسٰجِدَ سے مراد اعضائے سجدہ ہیں کہ ان اعضاء پر غیر اللہ کے لیے سجدہ نہ کرو۔

امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

السُّجُودُ عَلَی سَبْعَۃِ اَعْظُمٍ الْجَبْھَۃِ وَ الْیَدَیْنِ وَ الرُّکْبَتَیْنِ وَ الْاِبْہَامَیْنِ وَ تُرْغِمُ بَاَنْفِکَ اِرْغَاماً فَاَمَّا الْفَرْضُ فَھَذِہِ السَّبْعَۃُ وَ اَمَّا الْاِرْغَامُ بِالْاَنْفِ فَسُنَّۃٌ مِنَ النَّبِیِّ ص۔۔۔۔ ( التھذیب ۲: ۲۹۹)

سجدہ سات اعضاء پر ہونا چاہیے۔ پیشانی، دونوں ہاتھوں، دونوں کھٹنوں اور دونوں پاؤں کے انگوٹھوں پر۔ ناک زمین پر لگانا ہو گی۔ یہ سات واجب ہیں، ناک زمین پر لگانا سنت نبی ہے۔

حنفی کے نزدیک صرف پیشانی کا سجدہ واجب ہے۔ بعض ناک کو بھی شامل کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو رشحات ص۲۷۔

ایک قول کے مطابق شافعی صرف پیشانی کا سجدہ کافی سمجھتے ہیں۔

اسلامی مصادر و مآخذ سے جو ثابت ہوتا ہے وہ فقہ جعفری کا موقف ہے۔ یعنی سات اعضا پر سجدہ واجب ہے۔ ناک کا زمین پر لگانا مستحب ہے۔

چنانچہ صحیح بخاری کتاب الاذان میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

امرنا ان سجد علی سبعۃ اعظم۔

ہمیں حکم ملا ہے کہ سات اعضاء پر سجدہ کریں۔

اس کے بعد پیشانی، دونوں ہاتھوں، دونوں گٹھنوں اور دونوں پاؤں کا ذکر ہے۔

ان احادیث میں سات اعضاء کے لیے تین مختلف تعبیریں ہیں: سبعۃ اعظم، سبعۃ اطراف اور سبعۃ اراب۔ ملاحظہ ہو صحیح مسلم باب اعضاء السجود، ترمذی باب ماجاء فی السجود۔ ان میں ناک کا ذکر نہ ہونا دلیل ہے کہ یہ مستحب ہے، واجب نہیں ہے۔

اس طرح سنی اور شیعہ مصادر سے فقہ جعفری کا موقف ثابت ہوتا ہے۔ مقام تعجب ہے کہ بعض دیگر مذاہب سات اعضا پر سجدہ واجب نہیں سمجھتے جو صحیح بخاری کی حدیث امرنا ان نسجد علی سبعۃ اعظم (ہمیں حکم ملا ہے کہ سات اعضا پر سجدہ کریں) کے صریحاً خلاف ہے۔

خاک پر سجدہ: فقہ جعفری کے مطابق سجدہ خاک پر ہو سکتا ہے یا خاک سے اگنے والی اشیا پر جو کھانے، لباس کی چیزوں اورمعدنیات میں سے نہ ہوں۔

i۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا عمل شاہد ہے کہ آپؐ مٹی پر سجدہ فرمایا کرتے تھے۔ صحیح بخاری کتاب الاذان میں ابو سعید خدری راوی ہیں:

کان یسجد فی الماء و الطین حتی رایت اثر الطین فی جبھتہ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم آب و گل پر سجدہ کرتے تھے، میں نے حضورؐ کی پیشانی کو گِل آلود دیکھا ہے۔

ii۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خمرہ پر سجدہ کرتے تھے۔ خمرہ کھجور کی چھال سے بنی ہوئی ہتھیلی کے برابر چھوٹی چٹائی کو کہتے ہیں

تلخیص الصحاح اور محمد طاہر نے مجمع بحار صفحہ ۳۷۷ میں کہا ہے:

الخمرۃ وہی ہے جس پر آج کل شیعہ سجدہ کرتے ہیں۔

صحیح بخاری کتاب الصلوۃ میں آیا ہے:

کان رسول اللّٰہ یصلی علی الخمرۃ۔

رسول اللہؐ خمرہ پر نماز پڑھتے تھے۔

نیز ملاحظہ ہو صحیح مسلم باب الصلوۃ علی الخمرۃ۔

iii۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا سجدہ کے بارے میں فرمان ہے:

ترب وجھک۔

اپنے چہرے کو خاک آلود کرو۔

ملاحظہ ہو ترمذی کتاب الصلوۃ۔ مسند احمد باب حدیث ام سلمہ ۔

سنت نبوی کے مطابق ہر خاک پر سجدہ کرنا بہتر ہے تو جس شہید نے اس سجدے کی خاطر جان دے دی ہے اس کی خاک پر سجدہ کرنا یقینا افضل ہے۔

حضرت امام جعفر صادق سے روایت ہے:

اِنَّ السُّجُودَ عَلَی تُرْبَۃِ اَبِی عَبْدِ اللّٰہِ ع یَخْرِقُ الْحُجُبَ السَّبْعَ۔ ( الوسائل ۵: ۳۶۶ باب استجاب السجود )

حضرت امام حسین علیہ السلام کی تربت پر سجدہ کرنا (قبولیت میں مانع) سات پردوں کو ہٹا دیتا ہے۔


آیت 18