آیات 15 - 17
 

وَ اَمَّا الۡقٰسِطُوۡنَ فَکَانُوۡا لِجَہَنَّمَ حَطَبًا ﴿ۙ۱۵﴾

۱۵۔ اور جو منحرف ہو گئے وہ جہنم کا ایندھن بن گئے۔

وَّ اَنۡ لَّوِ اسۡتَقَامُوۡا عَلَی الطَّرِیۡقَۃِ لَاَسۡقَیۡنٰہُمۡ مَّآءً غَدَقًا ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔ اور (انہیں یہ بھی سمجھا دیں کہ) اگر یہ لوگ اسی راہ پر ثابت قدم رہتے تو ہم انہیں وافر پانی سے سیراب کرتے،

لِّنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ ؕ وَ مَنۡ یُّعۡرِضۡ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّہٖ یَسۡلُکۡہُ عَذَابًا صَعَدًا ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ تاکہ اس میں ہم ان کی آزمائش کریں اور جو شخص اپنے رب کے ذکر سے منہ پھیرے گا وہ اسے سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔

تشریح کلمات

غَدَقًا:

( غ د ق ) غدق کے معنی بہت زیادہ اور وافر کے ہیں۔ یہاں سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خطاب شروع ہے۔ لَاَسۡقَیۡنٰہُمۡ قرینہ ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ جو لوگ حق سے منحرف ہو جاتے ہیں وہ نہ صرف خود آتش جہنم میں جلیں گے بلکہ دوسرے جہنمیوں کے لیے ایندھن بن جائیں گے۔ سورہ بقرہ : ۲۴ اور سورہ تحریم آیت ۶ میں فرمایا:

وَقُوۡدُہَا النَّاسُ وَ الۡحِجَارَۃُ۔۔۔۔

جہنم کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے۔

۲۔ وَّ اَنۡ لَّوِ اسۡتَقَامُوۡا: اور جو لوگ حق پر ثابت قدم رہتے ہیں انہیں اللہ آبی ذخائر وافر مقدار میں فراہم فرماتا ہے۔ ظاہر ہے دنیا کی تمام نعمتوں کا دار و مدار پانی پر ہے۔ اس آیت سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایمان کے ثمرات صرف آخرت سے مخصوص نہیں ہیں اس دنیا کی زندگی میں بھی بہت سے ثمرات ہیں۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نوح آیت ۱۲

۳۔ لِّنَفۡتِنَہُمۡ فِیۡہِ: نعمتوں کے وفور سے ہم انہیں آزمائیں گے کہ کیا وہ ان نعمتوں کا شکر کرتے ہیں یاکفران نعمت کرتے ہوئے سرکش ہو جاتے ہیں۔

۴۔ وَ مَنۡ یُّعۡرِضۡ عَنۡ ذِکۡرِ رَبِّہٖ: ذکر خدا سے منہ موڑنے کامطلب انسان کی اپنے فطری اور جبلی حقوق سے منہ موڑنا ہے۔ ایسا شخص دنیا میں بے چینی کے عذاب میں مبتلا رہتا ہے اور آخرت میں دائمی عذاب میں۔


آیات 15 - 17