ہَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیۡمٍ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ جو عیب جو، چغل خوری میں دوڑ دھوپ کرنے والا،

مَّنَّاعٍ لِّلۡخَیۡرِ مُعۡتَدٍ اَثِیۡمٍ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ بھلائی سے روکنے والا، حد سے تجاوز کرنے والا، بدکردار،

عُتُلٍّۭ بَعۡدَ ذٰلِکَ زَنِیۡمٍ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ بدخو اور ان سب باتوں کے ساتھ بدذات بھی ہے،

اَنۡ کَانَ ذَا مَالٍ وَّ بَنِیۡنَ ﴿ؕ۱۴﴾

۱۴۔ اس بنا پر کہ وہ مال و اولاد کا مالک ہے۔

اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ جب اسے ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے: یہ تو قصہ ہائے پارینہ ہیں۔

10 تا15 ان آیات میں ایسے شخص کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں جسے لوگ ان اوصاف سے پہچان لیتے تھے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ شخص ولید بن مغیرہ ہے۔ تاہم حکم کلی ہے کہ زیادہ قسمیں کھانے والا اپنے وجود میں سچائی کا فقدان محسوس کرتا ہے، قسموں کے ذریعے اس کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے لیے لفظ مَّہِیۡنٍ مہانت یعنی بے وقار بتاتا ہے کہ باوقار آدمی زیادہ قسمیں نہیں کھاتا اور ایسے شخص کے کہنے میں بھی نہ آنے کا حکم ہے جو ہَمَّازٍ ہے، عیب جو، دوسروں کے عیوب کی کھوج میں لگا رہتا ہے، مَّشَّآءٍۭ ٍؚ دوڑ دھوپ کرنے والا ہے بِنَمِیۡمٍ چغل خوری کے لیے۔ ان الفاظ میں صیغہ مبالغہ استعمال ہوا ہے کہ یہ بری عادتیں اس شخص کا مزاج بن گئی ہیں۔

سَنَسِمُہٗ عَلَی الۡخُرۡطُوۡمِ﴿۱۶﴾

۱۶۔ عنقریب ہم اس کی سونڈ داغیں گے۔

16۔ یعنی اس کی ناک داغیں گے۔ اس میں اس شخص کی ذلت و رسوائی کی دو باتیں ہیں: اول تو ناک کی جگہ سونڈ کہا ہے جو ایک اہانت ہے۔ دوم ناک انسان کے چہرے کا نمایاں ترین حصہ ہے، اسے داغنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انتہائی مذلت اٹھائے۔

اِنَّا بَلَوۡنٰہُمۡ کَمَا بَلَوۡنَاۤ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ ۚ اِذۡ اَقۡسَمُوۡا لَیَصۡرِمُنَّہَا مُصۡبِحِیۡنَ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ ہم نے انہیں اس طرح آزمایا جس طرح ہم نے باغ والوں کی آزمائش کی تھی، جب انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ صبح سویرے اس (باغ) کا پھل توڑیں گے۔

وَ لَا یَسۡتَثۡنُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور وہ استثنا نہیں کر رہے تھے۔ (ان شاء اللہ نہیں کہا)۔

18۔ وہ اپنے کاموں کو اللہ کی مشیت کے ساتھ مربوط نہیں کرتے تھے بلکہ انہیں اپنی حسن تدبیر پر ناز تھا۔

فَطَافَ عَلَیۡہَا طَآئِفٌ مِّنۡ رَّبِّکَ وَ ہُمۡ نَآئِمُوۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور آپ کے رب کی طرف سے گھومنے والی (بلا) گھوم گئی اور وہ سو رہے تھے۔

فَاَصۡبَحَتۡ کَالصَّرِیۡمِ ﴿ۙ۲۰﴾

۲۰۔ پس وہ (باغ) کٹی ہوئی فصل کی طرح ہو گیا۔