آیات 10 - 13
 

وَ لَا تُطِعۡ کُلَّ حَلَّافٍ مَّہِیۡنٍ ﴿ۙ۱۰﴾

۱۰۔ اور آپ کسی بھی زیادہ قسمیں کھانے والے، بے وقار شخص کے کہنے میں نہ آئیں۔

ہَمَّازٍ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیۡمٍ ﴿ۙ۱۱﴾

۱۱۔ جو عیب جو، چغل خوری میں دوڑ دھوپ کرنے والا،

مَّنَّاعٍ لِّلۡخَیۡرِ مُعۡتَدٍ اَثِیۡمٍ ﴿ۙ۱۲﴾

۱۲۔ بھلائی سے روکنے والا، حد سے تجاوز کرنے والا، بدکردار،

عُتُلٍّۭ بَعۡدَ ذٰلِکَ زَنِیۡمٍ ﴿ۙ۱۳﴾

۱۳۔ بدخو اور ان سب باتوں کے ساتھ بدذات بھی ہے،

تفسیر آیات

ان لوگوں کی باتوں میں نہ آئیں:

۱۔ حَلَّافٍ: بات بات پر قسم کھانے والے کی۔ زیادہ قسم وہ شخص کھاتا ہے جو اللہ کی قدر و معرفت نہیں رکھتا اور اس کی باتوں میں حقیقت نہیں ہوتی۔ اس خلا کو وہ قسم سے پر کرنا چاہتا ہے۔ سچائی سے محرومی کا احساس’’ قسم ‘‘ ہے۔

۲۔ مَّہِیۡنٍ: بے وقار شخص کے کہنے میں نہ آئیں۔ جھوٹ بولنا انسان کی اپنی اہانت ہے۔ عزت و تکریم کے منافی ہے۔ بے وقعت انسان کو جھوٹ بولنے میں کوئی باک نہیں ہوتا کیونکہ اگر جھوٹ پکڑا بھی جائے تو اس کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی چونکہ اس کے نفس کی عزت ہی نہیں ہے۔ حدیث نبوی ہے:

لَا یَکْذِبُ الْکَاذِبُ اِلَّا مِنْ مَھَانَۃِ نَفْسِہِ۔۔۔۔ ( مستدرک الوسائل ۹:۸۴)

جھوٹ بولنے والا اپنی بے وقعتی کی وجہ سے ہی جھوٹ بولتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے:

الصادق علی شرف منجاۃ و کرامۃ والکاذب علی شفا مھوات و مھانۃ۔ ( ارشاد القلوب ۱: ۱۳۱)

راست گو نجات اور عزت کی دہلیز پر ہوتا ہے جب کہ دروغ گو حماقت اور اہانت کی کھائی پر ہوتا ہے۔

۳۔ ہَمَّازٍ: عیب جو، طعن گو کی باتوں میں نہ آئیں۔ جو شخص دوسروں کی عیب جوئی میں لگا رہتا ہے وہ اپنے عیوب و نقائص سے بے خبر ہوتا ہے۔ ایسا شخص جب بات کرتا ہے تو اس کی بات حقائق پر مبنی نہیں ہوتی۔

۴۔ مَّشَّآءٍۭ بِنَمِیۡمٍ: چغل خوری میں دوڑ دھوپ کرنے والے کی باتوں میں نہ آئیں۔

مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا: کیا میں تمہیں بتا دوں تم میں سے بدتر آدمی کون ہے؟ لوگوں نے عرض کیا فرمائیں یا رسول اللہ تو فرمایا:

الْمشَّائُ ونَ بِالنَّمِیْمَۃِ الْمُفَرِّقُوْنَ بَیْنَ الْاَحِبَّۃِ۔۔۔۔

تم میں بدتر شخص وہ ہے جو چغل خوری میں دوڑ دھوپ کرتا اور دوستوں میں جدائی ڈالتا ہے۔

حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:

اسوء الصدق النمیمۃ۔ ( غررالحکم نصیحت ۴۴۵۲)

بدترین سچائی چغل خوری ہے۔

۵۔ مَّنَّاعٍ لِّلۡخَیۡرِ: بھلائی سے روکنے والا۔ ایسا شخص بد توفیق اور بدخصلت ہوتا ہے جسے خود خیر کی توفیق نہیں ہوتی، دوسروں کو بھی خیر کی طرف جاتے ہوئے برداشت نہیں کر سکتا۔ بعض خیر سے مراد مال لیا جاتا ہے۔ مال خرچ نہ کرنے والے بخیل کی باتوں میں نہ آئیں۔

حدیث نبوی ہے:

الْبَخِیْلُ مُبَغَّضٌ فِی السَّمٰواتِ مُبَغَّضٌ فِی الْاَرْضِ۔۔۔۔ ( الکافی ۴: ۳۹)

بخیل آسمانوں میں مبغوض اور زمین میں بھی مبغوض ہے۔

دیگر حدیث میں آیا ہے:

لا تشاور البخیل فانہ یقصر بک عن غایتک۔۔۔۔ ( علل الشرائع ۲: ۵۵۹)

بخیل سے مشورہ نہ لو چونکہ وہ آپ کو مقصد تک پہنچنے نہیں دے گا۔

۶۔ مُعۡتَدٍ: تجاوز کار۔ حد سے آگے جانے والا۔ اخلاق اور فرائض کی حدود کی پاسداری نہ کرنے والا۔ قانون، اخلاق اور احکام کی حدوں کا احترام نہ کرنے والا۔ دوسروں کے حقوق عزت آبرو پر ڈاکہ ڈالنے والا۔

۷۔ اَثِیۡمٍ: بدکردار کی باتوںمیں بھی نہ آئیں۔ بدکردار، انسانی قدروں سے ناآگاہ ہوتا ہے۔ اسی لیے اسے بدکرداری بری نہیں لگتی۔ اگر آپ اس کی باتوں میں آئیں گے تو وہ آپ کو بری باتوں کو زیبا بنا کر پیش کرے گا اور اچھے کردار کی تعریف نہیں کرے گا۔

۸۔ عُتُلٍّۭ: بدخو کی باتوںمیں نہ آئیں۔ العتل کی تعریف اس طرح وارد ہوئی ہے:

العتل العظیم الکفر۔۔۔۔ ( معانی الاخبار ص۶۴۹)

عتل کفر میں بڑا کردار ادا کرنے والا ہے

۹۔ زَنِیۡمٍ: بد ذات کی باتوں میں نہ آئیں۔ حضرت امام باقرعلیہ السلام سے روایت ہے:

لَا خَیْرَ فِی وَلَدِ الزِّنَا وَ لَا فِی بَشَرِہِ وَ لَا فِی شَعْرِہِ وَ لَا فِی لَحْمِہِ وَ لَا فِی دَمَہِ وَ لَا فِی شَیْئٍ مِنْہُ عَجَزَتْ عَنْہُ السَّفِینَۃُ وَ قَدْ حُمِلَ فِیْھَا الْکَلْبُ وَ الْخِنْزِیرُ۔ ( الکافی ۵: ۳۵۵)

ولد زنا میں خیر نہیں ہے۔ نہ اس کی جلد میں، نہ بال میں، نہ گوشت و خون میں، نہ کسی چیز میں۔ اسے کشتی نوح نے بھی قبول نہیں کیا جب کہ اس میں کتے اور سور سوار ہو سکے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ

اِنَّ النَّاصِبَ شَرُّ مِنْ وَلَدِ الزِّنَا۔ ( مستدک الوسائل ۱۷: ۴۳۲)

ناصبی ولد زنا سے بھی بدتر ہے۔


آیات 10 - 13