فَتَنَادَوۡا مُصۡبِحِیۡنَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ صبح انہوں نے ایک دوسرے کو آوازیں دیں:

اَنِ اغۡدُوۡا عَلٰی حَرۡثِکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰرِمِیۡنَ﴿۲۲﴾

۲۲۔ اگر تمہیں پھل توڑنا ہے تو اپنی کھیتی کی طرف سویرے ہی چل پڑو۔

فَانۡطَلَقُوۡا وَ ہُمۡ یَتَخَافَتُوۡنَ ﴿ۙ۲۳﴾

۲۳۔ چنانچہ وہ چل پڑے اور آپس میں آہستہ آواز میں کہتے جاتے تھے،

اَنۡ لَّا یَدۡخُلَنَّہَا الۡیَوۡمَ عَلَیۡکُمۡ مِّسۡکِیۡنٌ ﴿ۙ۲۴﴾

۲۴۔ کہ یہاں تمہارے پاس آج قطعاً کوئی مسکین نہ آنے پائے۔

وَّ غَدَوۡا عَلٰی حَرۡدٍ قٰدِرِیۡنَ﴿۲۵﴾

۲۵۔ چنانچہ وہ خود کو (مسکینوں کے) روکنے پر قادر سمجھتے ہوئے سویرے پہنچ گئے۔

25۔ حَرۡدٍ : روکنا۔ منع کرنا۔ مالداروں کی دولت میں موجود مساکین کا حق ادا نہ کرنے کی صورت میں تباہی آتی ہے۔ البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ مساکین کو جو حق مل رہا ہے، اس کے ساتھ ان کی پوری توقعات وابستہ ہونے کے باوجود ان کے آس توڑ دی جائے۔

فَلَمَّا رَاَوۡہَا قَالُوۡۤا اِنَّا لَضَآلُّوۡنَ ﴿ۙ۲۶﴾

۲۶۔ مگر جب انہوں نے باغ کو دیکھا تو کہا: ہم تو راستہ بھول گئے ہیں۔

بَلۡ نَحۡنُ مَحۡرُوۡمُوۡنَ﴿۲۷﴾

۲۷۔ (نہیں) بلکہ ہم محروم رہ گئے ہیں۔

قَالَ اَوۡسَطُہُمۡ اَلَمۡ اَقُلۡ لَّکُمۡ لَوۡ لَا تُسَبِّحُوۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ ان میں جو سب سے زیادہ اعتدال پسند تھا کہنے لگا: کیا میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ تم تسبیح کیوں نہیں کرتے؟

قَالُوۡا سُبۡحٰنَ رَبِّنَاۤ اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ وہ کہنے لگے: پاکیزہ ہے ہمارا رب! ہم ہی قصور وار تھے۔

فَاَقۡبَلَ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ یَّتَلَاوَمُوۡنَ﴿۳۰﴾

۳۰۔ پھر وہ آپس میں ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے۔