آیات 17 - 18
 

اِنَّا بَلَوۡنٰہُمۡ کَمَا بَلَوۡنَاۤ اَصۡحٰبَ الۡجَنَّۃِ ۚ اِذۡ اَقۡسَمُوۡا لَیَصۡرِمُنَّہَا مُصۡبِحِیۡنَ ﴿ۙ۱۷﴾

۱۷۔ ہم نے انہیں اس طرح آزمایا جس طرح ہم نے باغ والوں کی آزمائش کی تھی، جب انہوں نے قسم کھائی تھی کہ وہ صبح سویرے اس (باغ) کا پھل توڑیں گے۔

وَ لَا یَسۡتَثۡنُوۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور وہ استثنا نہیں کر رہے تھے۔ (ان شاء اللہ نہیں کہا)۔

تشریح کلمات

لَیَصۡرِمُنَّہَا:

( ص ر م ) الصرم کاٹنے کو کہتے ہیں۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّا بَلَوۡنٰہُمۡ: ہم نے اہل مکہ کو ایک قحط کے ذریعے آزمائش میں ڈالا جیسا کہ یمن کے ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔ روایت میں آیا ہے:

ایک بزرگ شخص اپنے باغ کا پھل گھر لانے سے پہلے اپنی ضرورت سے زائد پھل غریبوں میں تقسیم کیا کرتا تھا مگر اس شخص کی وفات کے بعد ایک فرزند کے سوا باقی سب نے باپ کی اس روایت کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس ایک فرزند نے باقیوں کو تنبیہ بھی کی کہ مسکینوں کو کچھ نہ دینے کا فیصلہ نہ کرو لیکن وہ اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے تو اللہ تعالیٰ نے راتوں رات سارا باغ تباہ کر دیا۔

۲۔ وَ لَا یَسۡتَثۡنُوۡنَ: وہ استثنا نہیں کر رہے تھے یعنی وہ اپنے فیصلے کے وقت اللہ کی مشیت و ارادے کا حوالہ نہیں دیتے تھے اور انشاء اللہ نہیں کہتے تھے۔ انہیں اپنی تدبیر پر ناز تھا۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ وہ مسکینوں کے لیے کچھ نہیں چھوڑتے تھے۔ وہ بلا استثنا سارا مال خود لینا چاہتے تھے۔


آیات 17 - 18