اِذَا تُتۡلٰی عَلَیۡہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیۡرُ الۡاَوَّلِیۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ جب اسے ہماری آیات سنائی جاتی ہیں تو وہ کہتا ہے: یہ تو قصہ ہائے پارینہ ہیں۔

10 تا15 ان آیات میں ایسے شخص کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں جسے لوگ ان اوصاف سے پہچان لیتے تھے۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ یہ شخص ولید بن مغیرہ ہے۔ تاہم حکم کلی ہے کہ زیادہ قسمیں کھانے والا اپنے وجود میں سچائی کا فقدان محسوس کرتا ہے، قسموں کے ذریعے اس کی تلافی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے لیے لفظ مَّہِیۡنٍ مہانت یعنی بے وقار بتاتا ہے کہ باوقار آدمی زیادہ قسمیں نہیں کھاتا اور ایسے شخص کے کہنے میں بھی نہ آنے کا حکم ہے جو ہَمَّازٍ ہے، عیب جو، دوسروں کے عیوب کی کھوج میں لگا رہتا ہے، مَّشَّآءٍۭ ٍؚ دوڑ دھوپ کرنے والا ہے بِنَمِیۡمٍ چغل خوری کے لیے۔ ان الفاظ میں صیغہ مبالغہ استعمال ہوا ہے کہ یہ بری عادتیں اس شخص کا مزاج بن گئی ہیں۔