آیت 13
 

فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ﴿۱۳﴾

۱۳۔ پس (اے جن و انس !) تم دونوں اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟

تفسیر آیات

ان نعمتوں میں سے کسی ایک نعمت کو بھی تم نہیں جھٹلا سکتے۔

اس آیت میں خطاب جن و انس سے ہے۔ اس پر اگلی آیات شاہد ہیں۔ جیسے خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ، وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ اور سَنَفۡرُغُ لَکُمۡ اَیُّہَ الثَّقَلٰنِ۔

اٰلَآءِ: جمع ہے اِلْیُ کی۔ اس کے اصل معنی نعمت کے ہیں۔ دوسرے معانی میں اگر استعمال ہوا ہے تو بالعنایہ یعنی کسی مناسبت سے استعمال ہوا ہے۔ جیسے خوبیوں، کمالات وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے تو اصل معنی، ’’نعمت‘‘ ملحوظ رہتا ہے کہ خوبیاں اور کمالات بھی نعمت ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک لفظ مختلف اسلوب اور ترکیبوں میں استعمال ہوتا ہے تو ممکن ہے مختلف معانی کا فائدہ دے لیکن اگر ایک لفظ کو ایک ہی ترکیب اور ایک ہی اسلوب میں مکرر استعمال کیا گیا ہو تو صرف تکرار کی بنا پر معانی مختلف نہیں ہو سکتے جیسے وَ لَقَدۡ یَسَّرۡنَا الۡقُرۡاٰنَ لِلذِّکۡرِ فَہَلۡ مِنۡ مُّدَّکِرٍ۔ میں لِلذِّکۡرِ، مُّدَّکِرٍ اور یَسَّرۡنَا کے معانی صرف تکرار کی بنا پر مختلف نہیں ہو سکتے۔ جیسا کہ بعض اہل قلم نے اٰلَآءِ کے ہر دفعہ مختلف معنی نکالنے کی کوشش کی ہے۔

تکذیب نعمت کی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں:

i۔ بعض لوگ ان نعمتوں کو سرے سے اللہ کی طرف سے نہیں سمجھتے بلکہ اپنی مہارت اور محنت و ہوشیاری کا مرہون منت سمجھتے ہیں۔

ii۔ بعض لوگ ان نعمتوں کو اللہ کی جگہ غیر اللہ کی عنایت سمجھتے ہیں۔ جیسے مشرکین جو غیر اللہ کو رازق سمجھتے تھے۔

iii۔ بعض لوگ اگرچہ ان نعمتوں کو اللہ کی طرف سے سمجھتے ہیں لیکن مقام شکر میں ان کا رویہ منکروں سے مختلف نہیں ہے اور ان کے عمل اور کردار سے اس بات کا اظہار نہیں ہوتا کہ یہ نعمتیں اللہ کی طرف سے ہیں۔

یہ سب لوگ تکذیب نعمت کرنے والوں کے زمرے میں آتے ہیں۔


آیت 13