آیات 19 - 20
 

مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ یَلۡتَقِیٰنِ ﴿ۙ۱۹﴾

۱۹۔ اسی نے دو سمندروں کو جاری کیا کہ آپس میں مل جائیں،

بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ ﴿ۚ۲۰﴾

۲۰۔تاہم ان دونوں کے درمیان ایک آڑ ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔

تفسیر آیات

مَرَجَ الۡبَحۡرَیۡنِ: مَرَجَ روانہ کیا۔ دو سمندروں کو جاری کیا۔ سورہ فرقان آیت ۵۳ میں فرمایا کہ ان دو سمندروں سے مراد میٹھا اور کھارا پانی ہے:

اور اسی نے دو دریاؤں کو مخلوط کیا ہے، ایک شیریں مزیدار اور دوسرا کھارا کڑوا ہے اوراس نے دونوں کے درمیان ایک حد فاصل اور مضبوط رکاوٹ بنا دی ہے۔

ان دونوں پانیوں کو اللہ تعالیٰ نے جاری فرمایا ہے۔

۲۔ یَلۡتَقِیٰنِ: یہ دونوں پانی آپس میں مل جاتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ آپس میں ملنے والے دو سمندروں کا ذکر ہے۔

واضح رہے بحر، سمندر اور بڑے پیمانے پر موجود پانی والے دریا کو بھی کہتے ہیں۔ کیا اس سے سمندر کا کھارا پانی اور زیر زمین موجود میٹھا پانی مراد ہے؟ جیسا کہ صاحب المیزان نے اختیار کیا ہے یا دریاؤں سے سمندر میں بہنے والا میٹھا پانی مراد ہے؟ تحقیق طلب امر ہے۔

بَیۡنَہُمَا بَرۡزَخٌ لَّا یَبۡغِیٰنِ: ان دو پانیوں کے آپس ملنے کے باوجود ان کے درمیان ایک آڑ ہے۔ دونوں پانی اس آڑ کو پھلانگتے نہیں ہیں۔ سمندر کا پانی، زیر زمین پانی سے مخلوط ہو جاتا تو روئے زمین پر زندگی باقی نہ رہتی۔ اس سے لَّا یَبۡغِیٰنِ کی حکمت و مصلحت معلوم ہو جاتی ہے لیکن اگر دریاؤں اور سمندر کا پانی مراد لیا جائے تو بھی درست ہے۔ دونوں پانی ایک حد تک آپس میں نہیں ملتے لیکن اس میں کیا حکمت و مصلحت اور نعمتیں ہیں کہ جن و انس سے پوچھا جائے کہ تم اپنے رب کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے؟ ممکن ہے تحقیق سے ان نعمتوں کا علم ہو جائے۔


آیات 19 - 20