آیات 14 - 15
 

خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ صَلۡصَالٍ کَالۡفَخَّارِ ﴿ۙ۱۴﴾

۱۴۔ اس نے انسان کو ٹھیکری کی طرح کے خشک گارے سے بنایا۔

وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ مِنۡ مَّارِجٍ مِّنۡ نَّارٍ ﴿ۚ۱۵﴾

۱۵۔ اور جنات کو آگ کے شعلے سے پیدا کیا۔

تشریح کلمات

صَلۡصَالٍ:

( ص ل ل ) صَلصَال کے معنی کسی خشک چیز سے آنا کے ہیں۔ خشک مٹی کو بھی صلصال کہتے ہیں۔

فخار:

( ف خ ر ) الفخار مٹکوں کو کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ٹھوکا لگانے سے اس طرح زور سے بولتے ہیں جیسے کوئی بہت زیادہ فخر کر رہا ہو۔

مَّارِجٍ:

( م ر ج ) آگ کا شعلہ یا مخلوط آتش۔

تفسیر آیات

۱۔ یہ انسان کی ابتدائی تخلیق کا ذکر ہے کہ ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے خاکی عناصر سے خلق فرمایا۔ چنانچہ انسان کے جسم میں موجود تمام عناصر خاکی ہیں۔ قرآن مجید میں انسان کو خاک سے پیدا کرنے کا متعدد مقامات پر جب ذکر ہوتا ہے تو تخلیق کے مختلف مراحل و مراتب کی طرف اشارہ بھی ہوتا ہے۔ مثلاً مِنۡ تُرَابٍ، (۳ آل عمران: ۵۹) مِّنۡ طِیۡنٍ، (۶ انعام: ۲) مِّنۡ طِیۡنٍ لَّازِبٍ، (۳۷ صافات ۱۱) مِنۡ صَلۡصَالٍ مِّنۡ حَمَاٍ مَّسۡنُوۡنٍ۔ (۱۵ حجر: ۲۶) پھر فرمایا: وَ نَفَخۡتُ فِیۡہِ مِنۡ رُّوۡحِیۡ۔ (۱۵ حجر: ۲۹) پھر فرمایا: ثُمَّ جَعَلَ نَسۡلَہٗ مِنۡ سُلٰلَۃٍ مِّنۡ مَّآءٍ مَّہِیۡنٍ۔ ( ۳۲ سجدہ: ۸ (ترجمہ) پھر اس کی نسل کو حقیر پانی کے نچوڑ سے پیدا کیا۔)

۲۔ وَ خَلَقَ الۡجَآنَّ: جنات کو اللہ تعالیٰ نے شعلہ آتش سے خلق فرمایا اس لیے جنات نظر نہیں آتے۔ جس طرح انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے مگر اس چلتے پھرتے انسان اور مٹی میں بہت فرق ہے۔ اس طرح جنات آتش سے پیدا ہوئے ہیں لیکن وہ بالکل اس آتش کی طرح نہیں ہیں جو ہم جلاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں انسان باشعور مادہ ہے اور جنات باشعور انرجی۔


آیات 14 - 15