وَ اُزۡلِفَتِ الۡجَنَّۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ غَیۡرَ بَعِیۡدٍ﴿۳۱﴾

۳۱۔اور جنت پرہیزگاروں کے لیے قریب کر دی جائے گی، وہ دور نہ ہو گی۔

31۔ یہ نہیں فرمایا کہ اہل تقویٰ کو جنت کے نزدیک کیا جائے گا، بلکہ فرمایا: جنت کو اہل تقویٰ کے نزدیک کیا جائے گا کہ ادھر جنت میں داخل ہونے کا حکم مل گیا، ادھر وہ جنت میں پہنچ گئے۔ عالم آخرت کی بات ہی اور ہے۔ دنیا میں آئن سٹائن کے بقول زمان و مکان اضافی ہے۔ یعنی زمان و مکان ہر ایک کے لیے ایک جیسے نہیں ہیں۔ جو چیز نور کی رفتار سے سفر کرے اس کے چند منٹ زمین پر بسنے والے کی صدیوں کے برابر ہوں گے تو قیامت میں زمان و مکان کا وہ تصور نہ ہو گا جو دنیا میں ہے۔

ہٰذَا مَا تُوۡعَدُوۡنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیۡظٍ ﴿ۚ۳۲﴾

۳۲۔ یہ وہی ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا ہر اس شخص کے لیے جو توبہ کرنے والا، (حدود الٰہی کی) محافظت کرنے والا ہو،

مَنۡ خَشِیَ الرَّحۡمٰنَ بِالۡغَیۡبِ وَ جَآءَ بِقَلۡبٍ مُّنِیۡبِۣ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ جو بن دیکھے رحمن سے ڈرتا ہو اور مکرر رجوع کرنے والا دل لے کر آیا ہو۔

33۔ قلب منیب وہ دل ہے جو ذکر خدا سے معمور ہو۔ الانابۃ و النوب رجوع الشئ مرۃ بعد اخری بار بار رجوع کرنے کے معنوں میں ہیں۔

ادۡخُلُوۡہَا بِسَلٰمٍ ؕ ذٰلِکَ یَوۡمُ الۡخُلُوۡدِ﴿۳۴﴾

۳۴۔ تم اس جنت میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ، وہ ہمیشہ رہنے کا دن ہو گا۔

34۔ بِسَلٰمٍ : جنت میں امن و سلامتی ہو گی۔ کسی قسم کی تکلیف کا وہاں تصور نہ ہو گا۔

یَوۡمُ الۡخُلُوۡدِ : یعنی جنت کا یوم، دنیا کے یوم کی طرح نہ ہو گا۔ دنیا کے یوم کے لیے زوال و اختتام ہے، لیکن جنت کا یوم ابدی ہے، جس کے لیے کوئی زوال نہیں ہے۔

لَہُمۡ مَّا یَشَآءُوۡنَ فِیۡہَا وَلَدَیۡنَا مَزِیۡدٌ﴿۳۵﴾

۳۵۔ وہاں ان کے لیے جو وہ چاہیں گے حاضر ہے اور ہمارے پاس مزید بھی ہے۔

35۔ یعنی جنت کی نعمتیں جنتیوں کی خواہش تک ہی محدود نہیں۔ جن چیزوں کی وہ خواہش تو کیا تصور بھی نہیں کر سکتے، وہ بھی ان کو مل جایا کریں گی۔

وَ کَمۡ اَہۡلَکۡنَا قَبۡلَہُمۡ مِّنۡ قَرۡنٍ ہُمۡ اَشَدُّ مِنۡہُمۡ بَطۡشًا فَنَقَّبُوۡا فِی الۡبِلَادِ ؕ ہَلۡ مِنۡ مَّحِیۡصٍ﴿۳۶﴾

۳۶۔ ہم نے ان سے پہلے کتنی ایسی قوموں کو ہلاک کیا جو ان سے قوت میں کہیں زیادہ تھیں، پس وہ شہر بہ شہر پھرے، کیا کوئی جائے فرار ہے؟

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اس میں ہر صاحب دل کے لیے یقینا عبرت ہے جو کان لگا کر سنے اور (اس کا دل) حاضر رہے۔

37۔ صرف حق سے استفادہ کے لیے دو میں سے ایک ہونا چاہیے۔

لَہٗ قَلْبٌ : اس کے پاس دل ہو۔ دل ایک محاورہ ہے جس سے عقل و فکر مراد لی جاتی ہے۔ عقل و فکر سے کام لینے والے خود حق و باطل میں تمیز دے سکتے ہیں۔

اَلْقَى السَّمْعَ : یا ہادیان برحق سے حق کی باتیں سن کر حق و باطل میں تمیز دیتے ہیں۔

وَہُوَشَہِيْدٌ : قبول حق کے لیے اس کی عقل و فکر آمادہ نہ ہو۔ یا ہادیان برحق کی باتیں سنتے وقت اس کا دل حاضر نہ ہو تو صرف آواز کان کے پردوں سے ٹکرانے کی وجہ سے حقائق کا فہم و ادراک ممکن نہیں ہے۔

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ٭ۖ وَّ مَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ﴿۳۸﴾

۳۸۔ اور بتحقیق ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی۔

38۔ اللہ کو کائنات خلق کرنے کے لیے ایک ارادے کے سوا کچھ کرنا نہیں پڑتا جو وہ تھک جائے اور بقول بائبل ساتویں دن آرام کرنے کی ضرورت پیش آئے۔

فَاصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ سَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّکَ قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ وَ قَبۡلَ الۡغُرُوۡبِ ﴿ۚ۳۹﴾

۳۹۔ جو باتیں یہ کرتے ہیں اس پر آپ صبر کریں اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے اپنے رب کی ثناء کے ساتھ تسبیح کریں۔

وَ مِنَ الَّیۡلِ فَسَبِّحۡہُ وَ اَدۡبَارَ السُّجُوۡدِ﴿۴۰﴾

۴۰۔ اور رات کے وقت بھی اور سجدوں کے بعد بھی اس کی تسبیح کریں۔

40۔ ممکن ہے ”طلوع آفتاب سے پہلے“ سے مراد صبح کی نماز اور ”غروب آفتاب سے پہلے“ سے مراد ظہر اور عصر کی نماز اور ”رات کی تسبیح“ سے مراد مغرب و عشاء کی نمازیں ہوں اور ”سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد سے“ مراد نوافل و تعقیبات ہوں۔ تعقیبات میں تسبیحات پڑھنے کی بہت فضیلت ہے، جو رسول اللہ نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو تعلیم فرمائیں، جو تسبیح فاطمۃ الزہراء (س) سے مشہور ہے، وہ یہ ہے: 34 مرتبہ اَللّٰہُ اَکۡبَرۡ ، 33 مرتبہ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ ، 33 مرتبہ سُبۡحانَ للّٰہِ ۔