آیت 38
 

وَ لَقَدۡ خَلَقۡنَا السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ٭ۖ وَّ مَا مَسَّنَا مِنۡ لُّغُوۡبٍ﴿۳۸﴾

۳۸۔ اور بتحقیق ہم نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور ہمیں کوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی۔

تشریح کلمات

لُّغُوۡبٍ:

( ل غ ب ) بہت زیادہ درماندہ ہونے اور تھک جانے کے معنوں میں ہے۔

تفسیر آیات

اللہ کو کائنات خلق کرنے کے لیے ایک ارادے کے سوا کچھ کرنا نہیں پڑتا جو تھک جائے، بقول بائبل ساتویں دن آرام کرنا پڑے۔ یہ بات ہمارے لیے ہے کہ ہم کوئی مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو علل و اسباب عبور کر کے اس مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ بعض کاموں میں علل و اسباب زیادہ اور پیچیدہ ہوتے ہیں تو تھکنے کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا نہیں ہے:

اِنَّمَاۤ اَمۡرُہٗۤ اِذَاۤ اَرَادَ شَیۡئًا اَنۡ یَّقُوۡلَ لَہٗ کُنۡ فَیَکُوۡنُ (۳۶ یٰسٓ : ۸۲)

جب وہ کسی چیز کا ارادہ کر لیتا ہے تو بس اس کا امر یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ کہے: ہو جا پس وہ ہو جاتی ہے۔

اہم نکات

۱۔ کائنات کی تخلیق میں اللہ کا صرف ایک ارادہ صرف ہوا ہے۔


آیت 38