آیت 37
 

اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ﴿۳۷﴾

۳۷۔ اس میں ہر صاحب دل کے لیے یقینا عبرت ہے جو کان لگا کر سنے اور (اس کا دل) حاضر رہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَذِکۡرٰی: گزشتہ اقوام کی ہلاکت میں عبرت ہے ان لوگوں کے لیے جو حصول حق کے لیے دو ذریعوں میں سے ایک ذریعہ اختیار کریں۔

الف: لَہٗ قَلۡبٌ: اس کے پاس دل ہو۔ دل محاورہ ہے جس سے عقل و فکر مراد لی جاتی ہے۔ عقل و فکر سے کام لینے والے خود حق و باطل میں تمیز دے سکتے ہیں۔

ب: اَوۡ اَلۡقَی السَّمۡعَ: یا ہادیان برحق سے حق کی باتیں کان لگا کر سنیں تو حق اور باطل میں تمیز دے سکتے ہیں۔ وَ ہُوَ شَہِیۡدٌ: شرط یہ ہے کہ قبول حق کے لیے ان کی عقل و فکر میں آمادگی ہو۔ قبول حق کے لیے ضد اور ہٹ دھرمی میں نہ ہو یا ہادیان برحق کی باتیں سنتے وقت ان کا دل حاضر ہو ورنہ صرف آواز کان کے پردوں سے ٹکرانے کی وجہ سے حقائق کا فہم و ادراک ممکن نہیں ہے۔

فضیلت: محمد بن حنفیہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے اپنے بابا علی علیہ السلام کو سنا یہ فرماتے ہوئے:

لِمَنۡ کَانَ لَہٗ قَلۡبٌ سے مراد میرا قلب ہے۔

دوسری سند میں ہے: انا ذلک لَذِکۡرٰی ، وہ لَذِکۡرٰی میں ہوں۔

سدی، ابن عباس سے روایت کرتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص نے دو بڑی جسامت کی اونٹیاں تحفتاً پیش کیں۔ آپؐ نے اصحاب سے فرمایا: تم میں کوئی شخص ایسا ہے کہ جو دو رکعت نماز پڑھے جس میں دنیا کے کسی معاملے کا خیال نہ ہو اور دنیا کے کسی مفاد کا تصور اس کے ذہن میں نہ آئے؟

علی (علیہ السلام) کھڑے ہوئے اور نماز میں داخل ہوئے۔ سلام پھیرتے ہی جبرئیل نازل ہوئے اور اللہ کا حکم سنایا: یہ ایک اونٹنی علی کو دے دو۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: علی نے تشہد میں سوچا تھا کہ ان دو انٹنیوں میں سے کس اونٹنی کو لوں؟ جبرئیل نے کہا: سوچا اس طرح ہے کہ ان دونوں میں سے موٹی اونٹنی کو لوں گا اور برائے رضائے خدا صدقہ کر دوں گا۔ لہٰذا یہ تصور ذاتی نہیں ہے، نہ برائے دنیا ہے۔ جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں اونٹنیاں حضرت علی (علیہ السلام) کو عنایت فرمائیں۔ اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ما من عبد صلی للّٰہ رکعتین لا یفکر فیھما من امور الدنیا بشیء الا رضی اللہ عنہ و غفرلہ۔

جو شخص اللہ کے لیے دو رکعت نماز پڑھے جس میں کوئی دنیاوی بات ذہن میں نہ لائے تو اللہ اس سے راضی ہو جائے گا اور اسے بخش دے گا۔

اس حدیث کو حافظ السروی نے وکیع، سدی اور عطا سے روایت کیا ہے۔ جیسا کہ مناقب آل ابی طالب ۲: ۲۰ میں ہے۔ ملاحظہ شواہد التنزیل ذیل آیت۔

اہم نکات

۱۔ قلب و سماعت میں آمادگی کے بغیر حق کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔


آیت 37