آیت 154
 

ثُمَّ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَۃً نُّعَاسًا یَّغۡشٰی طَآئِفَۃً مِّنۡکُمۡ ۙ وَ طَآئِفَۃٌ قَدۡ اَہَمَّتۡہُمۡ اَنۡفُسُہُمۡ یَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ ظَنَّ الۡجَاہِلِیَّۃِ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ ہَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡاَمۡرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ ؕ یُخۡفُوۡنَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ مَّا لَا یُبۡدُوۡنَ لَکَ ؕ یَقُوۡلُوۡنَ لَوۡ کَانَ لَنَا مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ مَّا قُتِلۡنَا ہٰہُنَا ؕ قُلۡ لَّوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ لَبَرَزَ الَّذِیۡنَ کُتِبَ عَلَیۡہِمُ الۡقَتۡلُ اِلٰی مَضَاجِعِہِمۡ ۚ وَ لِیَبۡتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیۡ صُدُوۡرِکُمۡ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوۡرِ﴿۱۵۴﴾

۱۵۴۔ پھر جب اس غم کے بعد تم پر امن و سکون نازل فرمایا تو تم میں سے ایک گروہ تو اونگھنے لگا، جب کہ دوسرے گروہ کو اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی، وہ ناحق اللہ پر زمانہ جاہلیت والی بدگمانیاں کر رہے تھے، کہ رہے تھے: کیا اس امر میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے؟ کہدیجئے: سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے، یہ لوگ جو بات اپنے اندر چھپائے رکھتے ہیں اسے آپ پر ظاہر نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں: اگر (قیادت میں) ہمارا کچھ دخل ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے، کہدیجئے:اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تو بھی جن کے مقدر میں قتل ہونا لکھا ہے وہ خود اپنے مقتل کی طرف نکل پڑتے اور یہ (جو کچھ ہوا وہ اس لیے تھا) کہ جو کچھ تمہارے سینوں میں ہے اللہ اسے آزمائے اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے چھانٹ کر واضح کر دے اور اللہ دلوں کا حال خوب جانتا ہے ۔

تشریح کلمات

اَمَنَۃً:

( ا م ن ) امن۔

نُّعَاس:

( ن ع س ) اونگھ ، ہلکی نیند۔

مَضَاجِع:

( ض ج ع ) قتل کی جگہ مراد ہے۔

تفسیرآیات

معرکہ جنگ کے بعد لوگوں کی تقسیم بندی: ۱۔ اَنۡزَلَ عَلَیۡکُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ اَمَنَۃً: لشکر اسلام کے کچھ سپاہی حضور (ص)کی خدمت میں واپس آ گئے۔ وہ اپنے کیے پر اظہار ندامت کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ لوگ اس وقت واپس آئے جب مشرکین منتشر ہو چکے تھے اور حضور (ص) غار میں آ گئے تھے اور واپس آنے والوں کو یہ علم ہو گیا تھا کہ حضور (ص) زندہ ہیں۔ تاہم اللہ نے انہیں معاف کر دیا اور ان کی توبہ قبول کر لی اور انہیں اطمینان قلب سے نوازا: مِّنۡۢ بَعۡدِ الۡغَمِّ ۔۔۔۔

۲۔ وَ طَآئِفَۃٌ قَدۡ اَہَمَّتۡہُمۡ: دوسرے وہ لوگ تھے جنہیں اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی۔ یعنی اپنی جان بچانے کے علاوہ کوئی اور فکر ان کے ذہنوں پر سوار نہ تھی۔ وہ دین و مذہب کی فکر میں نہ تھے۔ دین کو وہ صرف اس صورت میں چاہتے تھے جب یہ دین ان کے مفادات کو تحفظ دے، فتح و نصرت ہو، غنیمت کے اموال ہاتھ آئیں وغیرہ۔

۳۔ یَظُنُّوۡنَ بِاللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ: چنانچہ ان کی یہ توقعات پوری نہ ہوئیں تو ان کے ایمان میں اس شکست کے باعث تزلزل آیا۔ طرح طرح کے خیالات ان کے اذہان میں آ رہے تھے کہ اگر یہ دین حق ہوتا تو شکست سے دوچار نہ ہوتا اور ہمارے لوگ اس جنگ میں کثرت سے مارے نہ جاتے۔

۴۔ ظَنَّ الۡجَاہِلِیَّۃِ: جاہلانہ خیالات پر مبنی یہ کافرانہ خیالات اس وجہ سے دلوں میں پیدا ہو رہے تھے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ دین حق، ظاہری شکست نہیں کھا سکتا اور علل و اسباب اور حالات کچھ بھی ہوں، حق کی فتح ضروری ہے، جب کہ فتح و نصرت کی نوید سنائی جا چکی تھی۔ اب چونکہ فتح نصیب نہیں ہوئی، لہٰذا اس دین کا مبنی برحق ہونا محل شک قرار پا گیا۔ آیت میں انہی کافرانہ خیالات کو ’’ظن جاہلیت‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

۵۔ جن خیالات کا وہ اظہار کرتے تھے، وہ سوالیہ انداز میں تھے: ہَلۡ لَّنَا مِنَ الۡاَمۡرِ مِنۡ شَیۡءٍ کیا اس امر میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے ؟ کیا فتح و نصرت ہمارا مذہبی حق نہیں ہے؟ جس کے جواب میں فرمایا: قُلۡ اِنَّ الۡاَمۡرَ کُلَّہٗ لِلّٰہِ ۔ ’’ کہدیجیے: سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ‘‘ یعنی اس کے وضع کردہ نظام علل و اسباب کے تحت ہی فتح یا شکست ہوتی ہے۔

۶۔ جن خیالات کا وہ اظہار نہیں کرتے تھے: يُخْفُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِھِمْ یعنی اپنے دلوں میں چھپائے رکھتے تھے، وہ یہ تھے: لَوۡ کَانَ لَنَا مِنَ الۡاَمۡرِ شَیۡءٌ مَّا قُتِلۡنَا ہٰہُنَا ۔ ’’اگر اس امر میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔ ‘‘ یعنی ہمارے ساتھ کیا ہوا وعدۂ فتح درست ہوتا تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔ یہ اسی قسم کی کافرانہ بات تھی جیسے جنگ احزاب میں کہا گیا: مَّا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اِلَّا غُرُوۡرًا ۔۔۔ (۳۳ الاحزاب: ۱۲) اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ کیا تھا وہ فریب کے سوا کچھ نہ تھا۔

تفسیر التحریر میں آیا ہے کہ یہ لَوۡ کَانَ لَنَا کا یہ جملہ معتب بن قیشر نے کہا تھا۔ زبیر بن عوام کہتے ہیں مجھے اونگھ آ رہی تھی۔ اس وقت معتب کو یہ بات کہتے سنا۔ قرآن نے اس کو سب کی طرف اسی لیے نسبت دی کہ سب اسی بات پر راضی تھے۔ یہ بات پہلے سے زیادہ بدتر ہے، کیونکہ اس جملے میں دین کے برحق نہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے۔

۷۔ قُلۡ لَّوۡ کُنۡتُمۡ فِیۡ بُیُوۡتِکُمۡ: اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا: تمہارا قتل ہو جانا دین کے حق پر نہ ہونے کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس قتل کے اپنے محرک اور علل و اسباب ہیں۔

ان علل و اسباب کے تحت فتح و شکست ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم حربی اصولوں کی خلاف ورزی اور جنگ سے فرار کرو اور اس کے نتیجے میں فتح و نصرت تمہیں نصیب ہو۔ لہٰذا نافرمانی اور بزدلی دکھانے والوں کا مقدر قتل ہے، خواہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوں۔

۸۔ وَ لِیَبۡتَلِیَ: اس شکست پر مترتب ہونے والا دیگر نتیجہ یہ ہے کہ اس سے تمہارے دلوں کے حال ظاہر اور تمہارے ضمیر فاش ہو گئے۔

۹۔ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ: اس شکست کی وجہ سے تمہارے دلوں میں موجود ساری باتیں چھن کر باہر آ گئیں۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ ان آیات میں ان مسلمانوں کا ذکر ہے، جن کے ایمان میں تزلزل آیا اور شکست کی وجہ سے ایمان کے بعد وہ شک میں مبتلا ہوئے۔ یہ منافقین کا ذکر نہیں ہے۔ کیونکہ منافقین تو عبد اللہ بن ابی کی سربراہی میں راستے سے واپس چلے گئے تھے اور جنگ میں شریک نہیں تھے۔ چنانچہ صاحب تفسیر المنارلکھتے ہیں:

فھذہ الطائفۃ من المومنین الضعفاء و لا حاجۃ الی جعلھا فی المنافقین ۔

یہ آیت ضعیف الایمان مسلمانوں کے ایک گروہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے، اسے منافقین سے منسلک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

چنانچہ قرآن ضعیف الایمان لوگوں کا منافقین کے ساتھ ذکر فرماتا ہے:

ذۡ یَقُوۡلُ الۡمُنٰفِقُوۡنَ وَ الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ غَرَّہٰۤؤُ لَآءِ ۔۔ (۸ انفال: ۴۹)

جب منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری تھی کہ رہے تھے: انہیں تو ان کے دین نے دھوکہ دے رکھا ہے۔

اہم نکات

۱۔ ضعیف الایمان لوگ ظاہری شکست کی بنا پر دین میں شک کرتے ہیں اور ظاہری فتح کو دین کی حقانیت کی دلیل سمجھتے ہیں۔

۲۔ مشکل وقت میں جوہر کھلتا ہے یا ضمیر فاش ہو جاتا ہے۔


آیت 154