احد میں خلق عظیم کا مظاہرہ


فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ﴿۱۵۹﴾

۱۵۹۔(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

159۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ صدمہ رسول اللہ ﷺ کو پہنچا۔ دشمن سے جنگ کے بارے میں مدینے میں اختلاف شروع ہوا۔ ایک تہائی لشکر راستے سے واپس چلا گیا۔ ایک گروہ نے غنیمت کے لالچ میں رسول ﷺ کی نافرمانی کی۔ حضرت حمزہ و دیگر شہداء کی قربانی دینا پڑی۔ حضور ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ چند افراد کے علاوہ باقی مسلمان آپ ﷺ کو میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ انہوں نے آپ ﷺ کی آواز پر بھی لبیک نہیں کہی اور پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔ آپ ﷺ کے قتل کی خبر سن کر دین سے برگشتہ ہو گئے اور آبائی دین اختیار کرنے کی باتیں کرنے لگے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام باتوں کے باوجود حضور ﷺ کا رویہ نرم رہا اور آپ ﷺ نے خدائی اخلاق کا مظاہرہ فرمایا۔ رحمت الہٰی کا مظاہرہ ہوا اور تمام گستاخیوں کے باوجود نہ کسی کو راندﮤ درگاہ کیا، نہ کسی کی ایسی سرزنش کی کہ وہ آپ ﷺ سے متنفر ہو جائے۔

فَبِمَا رَحۡمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِ لِنۡتَ لَہُمۡ ۚ وَ لَوۡ کُنۡتَ فَظًّا غَلِیۡظَ الۡقَلۡبِ لَانۡفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِکَ ۪ فَاعۡفُ عَنۡہُمۡ وَ اسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ وَ شَاوِرۡہُمۡ فِی الۡاَمۡرِ ۚ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَکَّلۡ عَلَی اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الۡمُتَوَکِّلِیۡنَ﴿۱۵۹﴾

۱۵۹۔(اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔

159۔ اس جنگ میں سب سے زیادہ صدمہ رسول اللہ ﷺ کو پہنچا۔ دشمن سے جنگ کے بارے میں مدینے میں اختلاف شروع ہوا۔ ایک تہائی لشکر راستے سے واپس چلا گیا۔ ایک گروہ نے غنیمت کے لالچ میں رسول ﷺ کی نافرمانی کی۔ حضرت حمزہ و دیگر شہداء کی قربانی دینا پڑی۔ حضور ﷺ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔ چند افراد کے علاوہ باقی مسلمان آپ ﷺ کو میدان جنگ میں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ انہوں نے آپ ﷺ کی آواز پر بھی لبیک نہیں کہی اور پلٹ کر دیکھا تک نہیں۔ آپ ﷺ کے قتل کی خبر سن کر دین سے برگشتہ ہو گئے اور آبائی دین اختیار کرنے کی باتیں کرنے لگے وغیرہ وغیرہ۔ ان تمام باتوں کے باوجود حضور ﷺ کا رویہ نرم رہا اور آپ ﷺ نے خدائی اخلاق کا مظاہرہ فرمایا۔ رحمت الہٰی کا مظاہرہ ہوا اور تمام گستاخیوں کے باوجود نہ کسی کو راندﮤ درگاہ کیا، نہ کسی کی ایسی سرزنش کی کہ وہ آپ ﷺ سے متنفر ہو جائے۔