آیت 155
 

اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا مِنۡکُمۡ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ۙ اِنَّمَا اسۡتَزَلَّہُمُ الشَّیۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَا کَسَبُوۡا ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ﴿۱۵۵﴾٪

۱۵۵۔ دونوں فریقوں کے مقابلے کے روز تم میں سے جو لوگ پیٹھ پھیر گئے تھے بلاشبہ ان کی اپنی بعض کرتوتوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں پھسلا دیا تھا، تاہم اللہ نے انہیں معاف کر دیا، یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا، بردبار ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا: اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ سے فرارکا ارتکاب کسی سابقہ گناہ کا ایک طبعی اور لازمی نتیجہ تھا، جس کی وجہ سے شیطان کو لغزش پیداکرنے کا موقع ملا: اِنَّمَا اسۡتَزَلَّہُمُ الشَّیۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَا کَسَبُوۡا ۔۔۔۔ جنگ سے فرار کے گناہ عظیم کا ارتکاب اس لیے کیا کہ شیطان کو ان فراریوں کے بعض سابقہ گناہوں سے اس گناہ کی طرف لے جانے کا راستہ مل گیا تھا۔ مثلاً خواہشات پرستی ایک ایسا گناہ ہے جو بہت سے گناہوں کا سرچشمہ ہے اور اسی وجہ سے وہ لوگ ذلت و خواری میں مبتلا ہوئے۔

۲۔ وَ لَقَدۡ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہُمۡ: معاف اور درگزر کا تذکرہ دو مقامات پر آیا ہے۔ پہلی دفعہ شفقت بھرے لہجے میں فرمایا:

وَ لَقَدۡ عَفَا عَنۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔ (۳ آل عمران: ۵۲ ۱)

اور اللہ نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور اللہ مومنین پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔

دوسری دفعہ اس آیت میں غائب کا صیغہ استعمال فرمایا اور لہجہ بھی پہلے سے مختلف ہے۔ اس سے علامہ طباطبائی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سابقہ عفو ان لوگوں کے بارے میں ہے جن پر امن و سکون نازل کیا گیا اور موجودہ عفو ایسے افراد سے متعلق ہے جنہیں اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی اور اللہ کے ساتھ جاہلیت والی کافرانہ بدگمانی کر رہے تھے۔ ان سے عفو کا مطلب یہ ہے کہ ان پر عذاب نازل کرنے میں عجلت سے کام نہیں لیا گیا۔ اس کے ساتھ اللہ کے غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ ہونے کا ذکر اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے گناہوں سے چشم پوشی کی گئی ہے، جب کہ ناراضگی برقرار ہے۔ (جنگ سے بھاگنے والوں کے بارے میں معلومات کے لیے ملاحظہ ہو تفسیر طبری ۴:۹۶۔ درمنثور ۲: ۷۷ و ۸۹ اور تفسیر فخرالدین رازی ۹: ۵۰)

اہم نکات

۱۔ بھاگنے والوں کے سابقہ گناہوں کا اثر تھا کہ شیطان انہیں فرار پر اکسانے میں کامیاب ہوا۔


آیت 155