اِنَّ الَّذِیۡنَ تَوَلَّوۡا مِنۡکُمۡ یَوۡمَ الۡتَقَی الۡجَمۡعٰنِ ۙ اِنَّمَا اسۡتَزَلَّہُمُ الشَّیۡطٰنُ بِبَعۡضِ مَا کَسَبُوۡا ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا اللّٰہُ عَنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ حَلِیۡمٌ﴿۱۵۵﴾٪

۱۵۵۔ دونوں فریقوں کے مقابلے کے روز تم میں سے جو لوگ پیٹھ پھیر گئے تھے بلاشبہ ان کی اپنی بعض کرتوتوں کی وجہ سے شیطان نے انہیں پھسلا دیا تھا، تاہم اللہ نے انہیں معاف کر دیا، یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا، بردبار ہے۔

155۔ اس جنگ سے فرار کو کسی سابقہ گناہ کا طبعی اور لازمی نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے شیطان کو لغزش پیدا کرنے کا موقع ملا۔ معاف اور درگزر کرنے کا تذکرہ دو مقامات پر آیا ہے۔ پہلی دفعہ نہایت نرم لہجے میں فرمایا: وَ لَقَدۡ عَفَا عَنۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اور دوسری دفعہ اس آیت میں آیا ہے اور لہجہ کلام پہلے سے مختلف، صیغہ بھی غائب کا استعمال ہوا ہے۔ علامہ طباطبائی اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ سابقہ عفو ان کے لیے ہے جن پر امن و سکون نازل کیا گیا اور دوسرا عفو ان لوگوں کے بارے میں ہے جو اللہ کے بارے میں جاہلانہ گمان رکھتے تھے۔ ان سے عفو کا مطلب ان پر عذاب نازل کرنے میں عجلت نہ کرنا ہے۔ چنانچہ اس کے بعد اللہ کے حلم و بردباری کا ذکر اس بات کی دلیل ہے کہ عفو کا مطلب فوری عذاب سے درگزر کرنا ہے۔