آیت 152
 

وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ عَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الدُّنۡیَا وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ۚ ثُمَّ صَرَفَکُمۡ عَنۡہُمۡ لِیَبۡتَلِیَکُمۡ ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا عَنۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۵۲﴾

۱۵۲۔اور بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا جب تم اللہ کے حکم سے کفار کو قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ تم خود کمزور پڑ گئے اور امر (رسول) میں تم نے باہم اختلاف کیا اور اس کی نافرمانی کی جب کہ اللہ نے تمہاری پسند کی بات (فتح و نصرت) بھی تمہیں دکھا دی تھی، تم میں سے کچھ طالب دنیا تھے اور کچھ آخرت کے خواہاں، پھر اللہ نے تمہیں کافروں کے مقابلے میں پسپا کر دیا تاکہ تمہارا امتحان لے اور اللہ نے تمہارا قصور معاف کر دیا اور اللہ ایمان والوں پر بڑا فضل کرنے والا ہے۔

تشریح کلمات

تَحُسُّوۡنَہُمۡ:

( ح س س ) الحاسّۃ ۔ حس کی قوت کو کہتے ہیں اور کسی حاسّہ پر مارنے کو بھی کہتے ہیں جس سے کبھی انسان قتل ہو جاتا ہے۔ اس لیے حَسَسْتُ بمعنی قَتَلْتُ آ جاتا ہے۔

تفسیر آیات

۱۔ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ: جنگ احد کی ابتدا میں مسلمان غالب آ گئے تھے اور کفار کو قتل کر رہے تھے۔

۲۔ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ: مال غنیمت کے لالچ کی وجہ سے تم میں کمزوری آ گئی اور عبد اللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے اختلاف کیا اور اپنے کمانڈر کی بات نہ مانی۔

۳۔ وَ عَصَیۡتُمۡ: اور تم نے اس وقت رسول (ص) کے حکم کی نافرمانی کی، جب کہ اللہ نے تمہیں فتح و نصرت سے نوازا تھا اور تم اپنی واضح فتح کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ چنانچہ رسول (ص) کی نافرمانی کی وجہ سے تمہیں ہزیمت کا منہ بھی دیکھنا پڑا۔

۴۔ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الدُّنۡیَا: تم میں کچھ طالب دنیا تھے کہ مال غنیمت کی طمع سے تمہارا یہ راز بھی فاش ہو گیا۔

عبد اللہ مسعود راوی ہے:

میرا یہ خیال نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے اصحاب میں کوئی طالب دنیا ہو گا، لیکن جب احد کے دن ہمارے بارے میں مَّنۡ یُّرِیۡدُ الدُّنۡیَا نازل ہوئی تو معلوم ہوا کہ ہم میں طالب دنیا موجود ہیں۔ (مجمع الزوائد حدیث ۱۰۹۰۴)

۵۔ ثُمَّ صَرَفَکُمۡ عَنۡہُمۡ: پھر اللہ نے تمہیں کفار کے مقابلے میں پسپا کر دیا۔ اگرچہ یہ پسپائی خود مسلمانوں کی کوتاہیوں کی وجہ سے رونما ہوئی، تاہم اس میں ایک مصلحت ضمناً ظاہر ہو گئی اور وہ تھی مسلمانوں کی آزمائش و امتحان۔

۶۔ لِیَبۡتَلِیَکُمۡ: تاکہ تمہارا امتحان لے۔ چنانچہ اس شکست سے بہت سے لوگوں کے ایمان کی پختگی کا برملا امتحان ہو گیا اور بہت سے لوگ اس میدان میں فاش ہو گئے۔

تفسیر ابن کثیر میں آیا ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ صرف نو (۹) افراد رہ گئے۔ ان میں سات انصار تھے۔ دو قریش کے تھے۔ (قریش کے ان دو افراد کا نام لینا ان کے لیے گوارا نہ ہوا۔) انصار کے ساتوں افراد شہید ہو گئے تو رسول اللہ (ص) نے اپنے دو ساتھیوں سے کہا: لا ما انصفنا اصحابنا ۔ ہمارے ساتھیوں نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ (تفسیر ابن کثیر۔ اسی آیت کے ذیل میں)

وَلَقَدْ عَفَا عَنْكُمْ: اللہ نے تم سے در گزر کیا۔ ابن جریح کہتے ہیں کہ عفو کے معنی ہیں لم یَسْتَأْصِلْکُمْ تم کو جڑ سے نہیں اکھاڑا۔ یعنی اللہ نے تم سے در گزر کیا اور تم کو کافروں کے ہاتھوں تباہ نہیں ہونے دیا۔

اہم نکات

۱۔ نافرمانی کا نتیجہ ناکامی ہے: صَرَفَکُمۡ عَنۡہُمۡ ۔


آیت 152