یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَکُوۡنُوۡا کَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ قَالُوۡا لِاِخۡوَانِہِمۡ اِذَا ضَرَبُوۡا فِی الۡاَرۡضِ اَوۡ کَانُوۡا غُزًّی لَّوۡ کَانُوۡا عِنۡدَنَا مَا مَاتُوۡا وَ مَا قُتِلُوۡا ۚ لِیَجۡعَلَ اللّٰہُ ذٰلِکَ حَسۡرَۃً فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ وَ اللّٰہُ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ؕ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ﴿۱۵۶﴾

۱۵۶۔ اے ایمان والو! کافروں کی طرح نہ ہونا جو اپنے عزیز و اقارب سے، جب وہ سفر یا جنگ پر جاتے ہیں تو کہتے ہیں: اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو نہ مرتے اور نہ قتل ہوتے، اللہ ایسی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت پیدا کرنے کے لیے سبب بنا دیتا ہے، ورنہ حقیقتاً مارنے اور جلانے والا تو اللہ ہی ہے اور ساتھ تمہارے اعمال کا خوب مشاہدہ کرنے والا بھی اللہ ہی ہے۔

156۔ اس کافرانہ سوچ کی طرف اشارہ ہے جو بعض مسلمانوں کو لاحق تھی۔ جس کے تحت وہ رسول اللہ ﷺ کو قتل و ہزیمت کا ذمہ دار ٹھہراتے تھے۔ چونکہ وہ موت اور قتل کا سبب سفر اور جنگ کو سمجھتے تھے، اس لیے ان کے دلوں میں حسرت رہ گئی۔ اگر وہ سمجھتے کہ یہ اللہ کا فیصلہ ہے اور موت نے ہر صورت میں آنا ہے تو حسرت نہ ہوتی۔ واضح رہے جنگ احد میں منافقین کی کوئی شرکت نہ تھی۔ عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو افراد کے ساتھ جنگ سے پیچھے ہٹ گیا تھا۔ لہذا یہ آیت منافقین سے مربوط نہیں ہے۔ ثانیاً اس آیت میں خطاب یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کہ کر اہل ایمان سے ہے، لہٰذا یہ ماننے کے سوا کوئی صورت نہیں ہے کہ یہ آیت کمزور ایمان والے مسلمانوں کے بارے میں ہے۔