آیت 36
 

فَمَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَمَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ ﴿ۚ۳۶﴾

۳۶۔ پس جو کچھ تمہیں دیا گیا ہے وہ دنیاوی زندگی کا سامان ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہترین اور زیادہ پائیدار ہے ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے اور اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں،

تفسیر آیات

۱۔ متاع دنیا دو قسم کے ہیں: ایک وہ متاع ہے جو انسان کے زندہ رہنے اور اپنی عزت وقار کے تحفظ کے لیے ضروری ہے۔ اس حد تک متاع حیات کا حصول مذموم نہیں ہے۔ چنانچہ ضمیر انسان بھی اس کی گواہی دیتا ہے۔ وہ گواہی یہ ہے کہ اس حد تک کے متاع کے حصول سے انسان کو سکون ملتا ہے اور آسودگی کا احساس ہوتا ہے۔

دوسرا متاع دنیا ضرورت سے زائد مال و دولت ہے جو برائے دولت ہو۔ اس متاع کی مذمت ہے اور ضمیر بھی گواہی دیتا ہے کہ انسان اس متاع کے لیے نہیں ہے۔ وہ گواہی یہ ہے کہ مال و دولت کی فراوانی سے انسان بے سکون ہو جاتا ہے۔ اگرچہ یہ مال حلال ہی کیوں نہ ہو اس سے سکون نہیں ملتا۔

لہٰذا متاع دنیا کی یہ قسم مذموم ہے، دنیامیں بے سکون کر دیتا ہے۔ حلال ہے تو آخرت میں حساب دینا ہے، حرام ہے تو عذاب کا سامنا ہے۔ پھر یہ زوال پذیر بھی ہے:

مَا اَصِفُ مِنْ دَارٍ اَوَّلُھَا عَنَائٌ وَ آخِرُھَا فَنَائٌ۔ فِی حَلَالِھَا حِسَابٌ وَ فِی حَرَامِھَا عِقَابٌ۔۔۔۔ (نہج البلاغۃ خ ۸۰)

میں اس دار دنیا کی حالت کیا بیان کروں کہ جس کی ابتداء رنج اور انتہا فنا ہو جس کے حلال میں حساب اور حرام میں سزا و عقاب ہو۔

۲۔ وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ: اس کے مقابلے میں اللہ کے پاس جو اجر و ثواب ہے وہ دائمی ہونے کے علاوہ رضایت الٰہی کی علامت ہے: وَ رِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰہِ اَکۡبَرُ۔۔۔۔ (۹ توبۃ: ۷۲) اللہ کی خوشنودی ناقابل وصف و بیان نعمت ہے۔

۳۔ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَلٰی رَبِّہِمۡ یَتَوَکَّلُوۡنَ: متاع دنیا اور متاع آخرت میں موازنہ ان کے لیے قابل فہم ہے جو ایمان اور اللہ کے وعدے پر بھروسہ رکھتے ہوں۔ اگر یہ دونوں کسی کے پاس نہیں ہیں ان کے لیے یہ موازنہ قابل فہم نہیں ہے۔ وہ دنیا ہی کو سمجھ سکتے اور اسی کو ترجیح دیتے ہیں۔


آیت 36