آیات 32 - 34
 

وَ مِنۡ اٰیٰتِہِ الۡجَوَارِ فِی الۡبَحۡرِ کَالۡاَعۡلَامِ ﴿ؕ۳۲﴾

۳۲۔ اور سمندر میں پہاڑوں جیسے جہاز اس کی نشانیوں میں سے ہے ۔

اِنۡ یَّشَاۡ یُسۡکِنِ الرِّیۡحَ فَیَظۡلَلۡنَ رَوَاکِدَ عَلٰی ظَہۡرِہٖ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوۡرٍ ﴿ۙ۳۳﴾

۳۳۔ اگر اللہ چاہے تو ہوا کو ساکن کر دے تو یہ سطح سمندر پر کھڑے رہ جائیں، ہر صبر کرنے والے شکرگزار کے لیے اس میں نشانیاں ہیں۔

اَوۡ یُوۡبِقۡہُنَّ بِمَا کَسَبُوۡا وَ یَعۡفُ عَنۡ کَثِیۡرٍ ﴿۫۳۴﴾

۳۴۔ یا انہیں ان کے اعمال کے سبب تباہ کر دے اور وہ بہت سے لوگوں سے درگزر کرتا ہے،

تفسیر آیات

۱۔ وَ مِنۡ اٰیٰتِہِ الۡجَوَارِ: سمندر کی پشت پر چلنے والی کشتیاں اللہ تعالیٰ کی مدبریت اور ربوبیت کی آیات اور نشانیوں میں سے ہیں کہ ان کشتیوں پر انسان کی معیشت کا انحصار ہے۔ خصوصاً آج کی متمدن دنیا کے تمدن کی بنا سمندری جہازوں کے ذریعے نقل و حمل کی مرہون ہے۔

لہٰذا تمہارا مدبر اور ربْ وہ ہے جس نے پانی پر کشتی کو اٹھایا۔ پانی میں یہ خاصیت ودیعت فرمائی کہ اپنے وزن سے کم وزن کی چیزیں اپنی پشت پر اٹھاتا ہے اور ہوا میں یہ خاصیت ودیعت فرمائی کہ درجہ حرارت کے اختلاف کی وجہ سے اس میں روانی آ جائے۔

۲۔ اِنۡ یَّشَاۡ یُسۡکِنِ الرِّیۡحَ: جس طرح اللہ کی مشیت کے تحت اور اس کی ودیعت شدہ خاصیت کے تحت ہوا چلتی ہے، کبھی اللہ کی مشیت کا تقاضا اس ہوا کے رک جانے میں ہوتا ہے تو ہوا رک جاتی ہے۔ جب مختلف علاقوں کا درجہ حرارت مختلف نہیں ہوتا۔

۳۔ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ: اس کشتی کے چلنے رکنے میں جذبۂ صبر و شکر سے سرشار مومنین کے لیے اللہ کی ربوبیت اور مدبریت کی نشانی ہے چونکہ کشتی چلنے رکنے جیسے مختلف حالات سے دوچار ہونے کی صورت میں مومن ہی صبر و شکر کرتا ہے اور ایمان کی نظر سے دیکھنے والوں کو یہ نشانیاں نظر آتی ہیں۔

۴۔ اَوۡ یُوۡبِقۡہُنَّ: یا اس ہوا کو تیز چلا کر ان کشتیوں کو غرق کر کے تباہ بھی کر دیا جاتا ہے۔ یہ تباہی بِمَا کَسَبُوۡا ان کشتیوں پر سوار لوگوں کے جرائم کا لازمہ ہو گی۔

۵۔ وَ یَعۡفُ عَنۡ کَثِیۡرٍ: لیکن ان کے تمام گناہوں کا مواخذہ نہ ہو گا۔ بہت سے گناہوں کے اثرات روک دیے جاتے ہیں۔


آیات 32 - 34