آیات 37 - 39
 

وَ الَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ وَ الۡفَوَاحِشَ وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا ہُمۡ یَغۡفِرُوۡنَ ﴿ۚ۳۷﴾

۳۷۔ اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب انہیں غصہ آئے تو معاف کر دیتے ہیں۔

وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۳۸﴾

۳۸۔ اور جو اپنے رب کو لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے معاملات باہمی مشاورت سے انجام دیتے ہیں اور ہم نے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَہُمُ الۡبَغۡیُ ہُمۡ یَنۡتَصِرُوۡنَ﴿۳۹﴾

۳۹۔ اور جب ان پر زیادتی سے ظلم کیا جاتا ہے تو وہ اس کا بدلہ لیتے ہیں۔

تفسیر آیات

وَ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ وَّ اَبۡقٰی: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ بہتر و دائمی ہے ان لوگوں کے لیے جن میں یہ اوصاف موجود ہوں:

i۔ ایمان، ii۔ توکل، iii۔بڑے گناہوں اور بے حیائی سے اجتناب، iv۔ غصے کی صورت میں معاف، v۔ اپنے رب کی ہر دعوت پر لبیک، vi۔ اقامۂ نماز، vii۔ اپنے معاملات میں مشورہ، viii۔ انفاق، ix۔ ظلم سے انکاری۔

۱۔ وَ الَّذِیۡنَ یَجۡتَنِبُوۡنَ کَبٰٓئِرَ الۡاِثۡمِ: یہ دائمی ثواب ان لوگوں کے لیے ہے جو ایمان اور توکل بر خدا کے بعد گناہانِ کبیرہ سے اجتناب کرتے ہیں۔ گناہان کبیرہ کی تعریف کیا ہے؟ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ نساء آیت ۳۱۔

۲۔ وَ الۡفَوَاحِشَ: فحش گناہوں سے بچتے ہیں۔ وَ الۡفَوَاحِشَ کے بارے میں ایک روایت میں حضرت علی علیہ السلام نے زنا، شراب نوشی اور ربا خواری کو وَ الۡفَوَاحِشَ میں شمار فرمایا ہے۔ ( مستدرک الوسائل ۴:۹۴)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے:

الْفَوَاحِشُ الزِّنَا وَ السَّرِقَۃُ۔ ( وسائل الشیعۃ ۱۵: ۳۲۳)

زنا، چوری فواحش ہیں۔

قرآن کی دیگر آیات میں الۡفَوَاحِشَ کی تعریف ملتی ہے:

وَ لَا تَقۡرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً ؕ وَ سَآءَ سَبِیۡلًا (۱۷ بنی اسرائیل : ۳۲)

اور زنا کے قریب بھی نہ جاؤ، یقینا یہ بڑی بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔

وَ لُوۡطًا اِذۡ قَالَ لِقَوۡمِہٖۤ اَتَاۡتُوۡنَ الۡفَاحِشَۃَ وَ اَنۡتُمۡ تُبۡصِرُوۡنَ (۲۷ نمل: ۵۴)

اور لوط (کا وہ وقت یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم بدکاری کا ارتکاب کرتے ہو؟ حالانکہ تم دیکھ رہے ہوتے ہو۔

ان آیات میں فواحش میں زنا لواط اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنا شامل ہیں۔

۳۔ وَ اِذَا مَا غَضِبُوۡا: غصہ آئے تو معاف کر دیتے ہیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:

مَنْ مَلَکَ نَفْسَہُ اِذَا رَغِبَ وَ اِذَا رَہِبَ وَ اِذَا اشْتَھَی وَ اِذَا غَضِبَ وَ اِذَا رَضِیَ حَرَّمَ اللہُ جَسَدَہُ عَلَی النَّارِ۔ (الفقیہ ۴: ۴۰۰)

جو شخص رغبت، خواہشات، خوف، غصے اور خوشی کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھتا ہے اس کے جسم کو اللہ جہنم کی آگ پر حرام کر دیتا ہے۔

روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا لوگوں میں بہتر کون ہے؟ فرمایا:

الذَّیْنَ اِذَا اَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوا وَ اِذَا اَسَائُ وا اسْتَغْفَرُوا وَ اِذَا اُعْطُوا شَکَرُوا وَ اِذَا ابْتُلُوا صَبَرُوا وَ اِذَا غَضِبُوا غَفَرُوا۔ (الوسائل ۱: ۱۰۶)

وہ لوگ ہیں کہ جب احسان کریں تو خوش ہو جائیں جب کوئی برا کام صادر ہو جائے تو استغفار کریں جب کوئی چیز مل جائے تو شکر کریں جب کسی مصیبت میں مبتلا ہو جائیں تو صبر کریں جب غصہ آئے تو معاف کریں۔

۴۔ وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ: اللہ کے پاس جو ثواب ہیں وہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو اللہ کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہیں۔ حکم الٰہی قبول اور اس پر عمل کرنے میں کسی قسم کے لیت و لعل سے کام نہیں لیتے۔ منجملہ نماز کا قائم کرنا ہے۔

۵۔ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ: اجتماعی امور میں دوسروں کے تجربات اور بہت سی عقلوں سے فائدہ اٹھانے کا نام مشورہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے:

لاَ ظَھِیرَ کَالْمُشَاوَرَۃِ۔ (الوسائل ۱۲: ۴۰)

باہمی مشاورت جیسی کوئی پشت پناہ نہیں۔

مشورہ ان امور میں لیا جاتا ہے جو بقول مولانا شبیر احمد عثمانی قرآن و سنت میں منصوص نہ ہوں۔ جو چیز منصوص ہو اس میں رائے و مشورہ کی گنجائش نہیں ہے اور غیر معقول ہو گا کہ خدا و رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوئی حکم دیں اور لوگ مشورے سے اس کے خلاف فیصلہ دیں۔

اَمۡرُہُمۡ: ’’اپنے معاملات‘‘ سے معلوم ہوا کہ مشاورت ان اجتماعی امور سے متعلق ہے جو شریعت سے متصادم نہیں ہیں اور جو قرآن و سنت میں منصوص ہے وہ اَمۡرُہُمۡ نہیں ہو گا بلکہ امر من اللہ ہو گا۔ چنانچہ سورہ احزاب آیت ۳۶ میں ارشاد فرمایا:

وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ وَّ لَا مُؤۡمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوۡلُہٗۤ اَمۡرًا اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہُمُ الۡخِیَرَۃُ مِنۡ اَمۡرِہِمۡ۔۔۔۔۔

اور کسی مؤمن اور مومنہ کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جب اللہ اور اس کے رسول کسی معاملے میں فیصلہ کریں تو انہیں اپنے معاملے کا اختیار حاصل رہے۔

۶۔ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ: راہ خدامیں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ مالی واجبات ادا کرتے ہیں۔

۷۔ وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَہُمُ الۡبَغۡیُ: مومن ظالم اور جابر کے مقابلے میں چٹان کی طرح مضبوط ہوتا ہے۔ وہ کسی جابر سے دبتا ہے نہ کسی ظالم کے سامنے ہتھیار ڈالتا ہے۔ یہ دوسری بات ہے وہ غالب آنے پر مغلوب اور کمزور آدمی کی غلطیوں سے درگزر کرتا ہے اور ندامت کا اظہار کرنے والے کی معذرت قبول کرتا ہے لیکن اگر ظالم اور جابر قابل عفو نہیں ہے تو اس سے صرف انتقام لیتا ہے اور اس پر زیادتی نہیں کرتا۔ آنے والی چند آیتوں میں انتقام کے اصول و ضوابط کا ذکر ہے:

اُذِنَ لِلَّذِیۡنَ یُقٰتَلُوۡنَ بِاَنَّہُمۡ ظُلِمُوۡا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصۡرِہِمۡ لَقَدِیۡرُۨ (۲۲حج: ۳۹)

جن لوگوں پر جنگ مسلط کی جائے انہیں (جنگ کی) اجازت دی گئی ہے کیونکہ وہ مظلوم واقع ہوئے اور اللہ ان کی مددکرنے پر یقینا قدرت رکھتا ہے۔

چونکہ ظلم و زیادتی کا دفاع قابل ستائش عمل ہے۔ دفاع ممکن ہونے کے باوجود ظالم اور سرکش کو ظلم کرنے کی اجازت دینا مذموم ہے۔


آیات 37 - 39