وَ الَّذِیۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِرَبِّہِمۡ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ۪ وَ اَمۡرُہُمۡ شُوۡرٰی بَیۡنَہُمۡ ۪ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ﴿ۚ۳۸﴾

۳۸۔ اور جو اپنے رب کو لبیک کہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور اپنے معاملات باہمی مشاورت سے انجام دیتے ہیں اور ہم نے جو رزق انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

38۔ اجتماعی امور میں دوسروں کے تجربات اور بہت سی عقلوں سے فائدہ اٹھانے کا نام مشورہ ہے۔ حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے: لَا ظَھِیْرَ کَالْمُشَاوَرَۃِ ۔ (وسائل الشیعۃ 12: 40) باہمی مشاورت جیسا کوئی پشت پناہ نہیں ہے۔ مشورہ ان امور میں لیا جاتا ہے جو بقول مولانا شبیر احمد عثمانی قرآن و سنت میں منصوص نہ ہوں۔ جو چیز منصوص ہو، اس میں رائے و مشورہ کی گنجائش نہیں اور یہ غیر معقول ہو گا کہ خدا و رسول ﷺ کوئی حکم دیں اور لوگ مشورہ کر کے اس کے خلاف فیصلہ دیں۔ وَاَمْرُہُمْ اپنے معاملات، سے معلوم ہوا کہ مشاورت ان اجتماعی امور سے متعلق ہے جو حکم شریعت سے متصادم نہیں ہیں اور جو قرآن و سنت میں منصوص ہے، وہ وَ اَمۡرُہُمۡ نہیں ہو گا، بلکہ امر من اللہ ہو گا۔ چنانچہ سورہ احزاب آیت 36 میں اللہ کے فیصلے کے بعد کسی اختیار کی نفی فرمائی: اَنْ يَّكُوْنَ لَہُمُ الْخِـيَرَۃُ مِنْ اَمْرِہِمْ ۔