سیرئہ داودؑ کے دروس


اِصۡبِرۡ عَلٰی مَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ اذۡکُرۡ عَبۡدَنَا دَاوٗدَ ذَا الۡاَیۡدِ ۚ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ﴿۱۷﴾

۱۷۔ (اے رسول) جو یہ کہتے ہیں اس پر صبر کیجیے اور (ان سے) ہمارے بندے داؤد کا قصہ بیان کیجیے جو طاقت کے مالک اور (اللہ کی طرف) بار بار رجوع کرنے والے تھے۔

17۔ طاقت کے مالک سے مراد ممکن ہے جسمانی طاقت ہو۔ جیسا کہ طاغوت کے مقابلے میں آپ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور ممکن ہے روحانی طاقت مراد ہو۔

ذَا الۡاَیۡدِ : یعنی قوت والا۔ وہ روحانی اور جسمانی قوت کے مالک تھے۔

اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ : بار بار رجوع سے مراد عبادت ہے۔ چنانچہ احادیث میں آیا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام سب سے زیادہ عبادت گزار تھے۔

اِنَّا سَخَّرۡنَا الۡجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحۡنَ بِالۡعَشِیِّ وَ الۡاِشۡرَاقِ ﴿ۙ۱۸﴾

۱۸۔ہم نے ان کے لیے پہاڑوں کو مسخر کیا تھا، یہ صبح و شام ان کے ساتھ تسبیح کرتے تھے۔

وَ الطَّیۡرَ مَحۡشُوۡرَۃً ؕ کُلٌّ لَّہٗۤ اَوَّابٌ﴿۱۹﴾

۱۹۔اور پرندوں کو بھی (مسخر کیا)، یہ سب اکٹھے ہو کر ان کی طرف رجوع کرنے والے تھے

19۔ اس موضوع کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انبیاء آیت 79۔

وَ شَدَدۡنَا مُلۡکَہٗ وَ اٰتَیۡنٰہُ الۡحِکۡمَۃَ وَ فَصۡلَ الۡخِطَابِ﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور ہم نے ان کی سلطنت مستحکم کر دی اور انہیں حکمت عطا کی اور فیصلہ کن گفتار (کی صلاحیت) دے دی۔

20۔ یعنی گفتگو میں پیچیدگی نہیں ہوتی تھی۔ دو ٹوک الفاظ میں بات کرتے تھے۔ بعض نے کہا ہے: فَصۡلَ الۡخِطَابِ سے مراد زبور ہے۔ حکمت حقائق کا فہم اور ادراک کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

وَ ہَلۡ اَتٰىکَ نَبَؤُا الۡخَصۡمِ ۘ اِذۡ تَسَوَّرُوا الۡمِحۡرَابَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ اور کیا آپ کے پاس مقدمے والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر محراب میں داخل ہوئے؟

اِذۡ دَخَلُوۡا عَلٰی دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنۡہُمۡ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ ۚ خَصۡمٰنِ بَغٰی بَعۡضُنَا عَلٰی بَعۡضٍ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَنَا بِالۡحَقِّ وَ لَا تُشۡطِطۡ وَ اہۡدِنَاۤ اِلٰی سَوَآءِ الصِّرَاطِ﴿۲۲﴾

۲۲۔ جب وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے گھبرا گئے، انہوں نے کہا:خوف نہ کیجیے، ہم نزاع کے دو فریق ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے لہٰذا آپ ہمارے درمیان برحق فیصلہ کیجیے اور بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں سیدھا راستہ دکھا دیجئے۔

22۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی خلوت گاہ میں دیوار پھاند کر دو افراد پہنچے تو حضرت داؤد علیہ السلام کا گھبرانا قدرتی بات تھی۔

اِنَّ ہٰذَاۤ اَخِیۡ ۟ لَہٗ تِسۡعٌ وَّ تِسۡعُوۡنَ نَعۡجَۃً وَّ لِیَ نَعۡجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۟ فَقَالَ اَکۡفِلۡنِیۡہَا وَ عَزَّنِیۡ فِی الۡخِطَابِ﴿۲۳﴾

۲۳۔ یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے، یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالے کرو اور گفتگو میں مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے۔

قَالَ لَقَدۡ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعۡجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡخُلَطَآءِ لَیَبۡغِیۡ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ قَلِیۡلٌ مَّا ہُمۡ ؕ وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسۡتَغۡفَرَ رَبَّہٗ وَ خَرَّ رَاکِعًا وَّ اَنَابَ ﴿ٛ۲۴﴾

۲۴۔ داؤد کہنے لگے: تیری دنبی اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے یقینا یہ تجھ پر ظلم کرتا ہے اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان رکھتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں، پھر داؤد کو خیال آیا کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے چنانچہ انہوں نے اپنے رب سے معافی مانگی اور عاجزی کرتے ہوئے جھک گئے اور (اللہ کی طرف) رجوع کیا۔

24۔ فیصلہ سنانے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام فوراً سمجھ گئے کہ یہ کسی نزاع کا مسئلہ نہ تھا، بلکہ میری آزمائش کے لیے ایک ڈرامائی صورت تھی جو فرشتوں نے صرف مجھے آزمانے کے لیے پیش کی تھی۔ اگر یہ خطا کسی حقیقی نزاع کی قضاوت کے بارے میں ہوتی تو سچ مچ قابل سرزنش تھی، لیکن یہ تو ایک تمثیلی نزاع کے بارے میں تھی۔ وہ خطا جو حضرت داؤد علیہ السلام سے سرزد ہوئی، کیا تھی؟ اس بارے میں روایات اور مفسرین میں بہت اختلاف ہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی ایک روایت کے مطابق ان کی خطا یہ تھی کہ ان کو خیال ہوا کہ شاید ان سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی نہ ہے۔ اس پر حضرت داؤد علیہ السلام کی آزمائش کے لیے دو فرشتے آئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے مدعی کا بیان سنتے ہی اس کے حق میں فیصلہ دے دیا اور مدعی سے گواہ طلب نہ کیا۔ یہ عمل اللہ کو پسند نہ آیا۔

بعض حضرات جو روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام اوریا کی بیوی پر عاشق ہو گئے اور اوریا کو جنگ میں بھیج کر مروایا، پھر اس سے شادی کی، ایک نبی پر صریح بہتان ہے۔ اس روایت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: جو یہ روایت بیان کرے، میں اسے ایک سو ساٹھ کوڑے ماروں گا، جو انبیاء علیہ السلام پر بہتان تراشی کی سزا ہے۔ (زبذۃ التفاسیر 6: 23)