وَ ہَلۡ اَتٰىکَ نَبَؤُا الۡخَصۡمِ ۘ اِذۡ تَسَوَّرُوا الۡمِحۡرَابَ ﴿ۙ۲۱﴾

۲۱۔ اور کیا آپ کے پاس مقدمے والوں کی خبر پہنچی ہے جب وہ دیوار پھاند کر محراب میں داخل ہوئے؟

اِذۡ دَخَلُوۡا عَلٰی دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنۡہُمۡ قَالُوۡا لَا تَخَفۡ ۚ خَصۡمٰنِ بَغٰی بَعۡضُنَا عَلٰی بَعۡضٍ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَنَا بِالۡحَقِّ وَ لَا تُشۡطِطۡ وَ اہۡدِنَاۤ اِلٰی سَوَآءِ الصِّرَاطِ﴿۲۲﴾

۲۲۔ جب وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے گھبرا گئے، انہوں نے کہا:خوف نہ کیجیے، ہم نزاع کے دو فریق ہیں، ہم میں سے ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے لہٰذا آپ ہمارے درمیان برحق فیصلہ کیجیے اور بے انصافی نہ کیجیے اور ہمیں سیدھا راستہ دکھا دیجئے۔

22۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی خلوت گاہ میں دیوار پھاند کر دو افراد پہنچے تو حضرت داؤد علیہ السلام کا گھبرانا قدرتی بات تھی۔

اِنَّ ہٰذَاۤ اَخِیۡ ۟ لَہٗ تِسۡعٌ وَّ تِسۡعُوۡنَ نَعۡجَۃً وَّ لِیَ نَعۡجَۃٌ وَّاحِدَۃٌ ۟ فَقَالَ اَکۡفِلۡنِیۡہَا وَ عَزَّنِیۡ فِی الۡخِطَابِ﴿۲۳﴾

۲۳۔ یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے، یہ کہتا ہے کہ اسے میرے حوالے کرو اور گفتگو میں مجھ پر دباؤ ڈالتا ہے۔

قَالَ لَقَدۡ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعۡجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہٖ ؕ وَ اِنَّ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡخُلَطَآءِ لَیَبۡغِیۡ بَعۡضُہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ اِلَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ قَلِیۡلٌ مَّا ہُمۡ ؕ وَ ظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسۡتَغۡفَرَ رَبَّہٗ وَ خَرَّ رَاکِعًا وَّ اَنَابَ ﴿ٛ۲۴﴾۩

۲۴۔ داؤد کہنے لگے: تیری دنبی اپنی دنبیوں کے ساتھ ملانے کا مطالبہ کر کے یقینا یہ تجھ پر ظلم کرتا ہے اور اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کرتے ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان رکھتے ہیں اور نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور ایسے لوگ تھوڑے ہوتے ہیں، پھر داؤد کو خیال آیا کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے چنانچہ انہوں نے اپنے رب سے معافی مانگی اور عاجزی کرتے ہوئے جھک گئے اور (اللہ کی طرف) رجوع کیا۔

24۔ فیصلہ سنانے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام فوراً سمجھ گئے کہ یہ کسی نزاع کا مسئلہ نہ تھا، بلکہ میری آزمائش کے لیے ایک ڈرامائی صورت تھی جو فرشتوں نے صرف مجھے آزمانے کے لیے پیش کی تھی۔ اگر یہ خطا کسی حقیقی نزاع کی قضاوت کے بارے میں ہوتی تو سچ مچ قابل سرزنش تھی، لیکن یہ تو ایک تمثیلی نزاع کے بارے میں تھی۔ وہ خطا جو حضرت داؤد علیہ السلام سے سرزد ہوئی، کیا تھی؟ اس بارے میں روایات اور مفسرین میں بہت اختلاف ہے۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے مروی ایک روایت کے مطابق ان کی خطا یہ تھی کہ ان کو خیال ہوا کہ شاید ان سے زیادہ علم رکھنے والا کوئی نہ ہے۔ اس پر حضرت داؤد علیہ السلام کی آزمائش کے لیے دو فرشتے آئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے مدعی کا بیان سنتے ہی اس کے حق میں فیصلہ دے دیا اور مدعی سے گواہ طلب نہ کیا۔ یہ عمل اللہ کو پسند نہ آیا۔

بعض حضرات جو روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام اوریا کی بیوی پر عاشق ہو گئے اور اوریا کو جنگ میں بھیج کر مروایا، پھر اس سے شادی کی، ایک نبی پر صریح بہتان ہے۔ اس روایت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: جو یہ روایت بیان کرے، میں اسے ایک سو ساٹھ کوڑے ماروں گا، جو انبیاء علیہ السلام پر بہتان تراشی کی سزا ہے۔ (زبذۃ التفاسیر 6: 23)

فَغَفَرۡنَا لَہٗ ذٰلِکَ ؕ وَ اِنَّ لَہٗ عِنۡدَنَا لَزُلۡفٰی وَ حُسۡنَ مَاٰبٍ﴿۲۵﴾

۲۵۔ پس ہم نے ان کی اس بات کو معاف کیا اور یقینا ہمارے نزدیک ان کے لیے تقرب اور بہتر بازگشت ہے۔

یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلۡنٰکَ خَلِیۡفَۃً فِی الۡاَرۡضِ فَاحۡکُمۡ بَیۡنَ النَّاسِ بِالۡحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ؕ اِنَّ الَّذِیۡنَ یَضِلُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ لَہُمۡ عَذَابٌ شَدِیۡدٌۢ بِمَا نَسُوۡا یَوۡمَ الۡحِسَابِ ﴿٪۲۶﴾

۲۶۔ اے داؤد! ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خواہش کی پیروی نہ کریں، وہ آپ کو اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی، جو اللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں ان کے لیے یوم حساب فراموش کرنے پر یقینا سخت عذاب ہو گا۔

26۔ یعنی زمین پر اللہ کا خلیفہ۔ جو بھی ہستی زمین پر اللہ کا خلیفہ ہے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے میں اللہ کا اخلاق پیدا کرے۔ اس میں سب سے پہلا فریضہ لوگوں کے درمیان برحق فیصلہ کرنا ہے۔ یعنی لوگوں کو انصاف فراہم کرنا اللہ کے نمائندوں کا سب سے پہلا فریضہ ہے۔

وَ لَا تَتَّبِعِ الۡہَوٰی : انصاف کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ خواہشات کی پیروی کرنا ہے۔ ایک خواہش پرست جج انصاف نہیں دے سکتا۔

وَ مَا خَلَقۡنَا السَّمَآءَ وَ الۡاَرۡضَ وَ مَا بَیۡنَہُمَا بَاطِلًا ؕ ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ۚ فَوَیۡلٌ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنَ النَّارِ ﴿ؕ۲۷﴾

۲۷۔ اور ہم نے آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو بے مقصد پیدا نہیں کیا، یہ کفار کا گمان ہے، ایسے کافروں کے لیے آتش جہنم کی تباہی ہے۔

اَمۡ نَجۡعَلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالۡمُفۡسِدِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۫ اَمۡ نَجۡعَلُ الۡمُتَّقِیۡنَ کَالۡفُجَّارِ﴿۲۸﴾

۲۸۔ کیا ہم ایمان لانے اور اعمال صالح بجا لانے والوں کو زمین میں فساد پھیلانے والوں کی طرح قرار دیں یا اہل تقویٰ کو بدکاروں کی طرح قرار دیں؟

28۔ اگر ان قدروں کو تسلیم نہ کیا جائے اور نیکی بجا لانے والا برائی کا ارتکاب کرنے والے کے برابر ہو جائے اور اصلاح کا داعی مفسدوں کے مساوی ہو جائے تو کائنات کا پورا نظام عبث ہو کر رہ جاتا ہے اور انسان ایک کھلونا بن جاتا ہے۔ یہ تصور بذات خود انسانیت کی توہین ہے۔

آیت میں اس بات کی صراحت موجود ہے: یہ کام اللہ سے صادر نہ ہو گا کہ صالح اور فسادی، متقی اور بدکار ایک جیسے ہوں۔ کیونکہ ہر عاقل سمجھ لیتا ہے کہ ایسا کرنا اپنی جگہ ایک قبیح عمل ہے۔ یعنی شریعت سے ہٹ کر اپنی جگہ یہ قبیح ہے۔ جو شریعت کو نہیں مانتا وہ بھی اسے قبیح سمجھتا ہے۔ اسے قبح عقلی کہتے ہیں۔ آیت کی صراحت یہ ہے کہ اللہ اس قسم کے قبیح عمل کا ارتکاب نہیں کرتا۔ ایسا کرنا عدل کے خلاف ہے اور اللہ عادل ہے۔

کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ اِلَیۡکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوۡۤا اٰیٰتِہٖ وَ لِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ﴿۲۹﴾

۲۹۔ یہ ایک ایسی بابرکت کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں تدبر کریں اور صاحبان عقل اس سے نصیحت حاصل کریں۔

وَ وَہَبۡنَا لِدَاوٗدَ سُلَیۡمٰنَ ؕ نِعۡمَ الۡعَبۡدُ ؕ اِنَّہٗۤ اَوَّابٌ ﴿ؕ۳۰﴾

۳۰۔ اور ہم نے داؤد کو سلیمان عطا کیا جو بہترین بندے اور (اللہ کی طرف) خوب رجوع کرنے والے تھے۔