وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴿ۚ۳۳﴾

۳۳۔ اور اپنے گھروں میں جم کر بیٹھی رہو اور قدیم جاہلیت کی طرح اپنے آپ کو نمایاں کرتی نہ پھرو نیز نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو، اللہ کا ارادہ بس یہی ہے ہر طرح کی ناپاکی کو اہل بیت ! آپ سے دور رکھے اور آپ کو ایسے پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

33۔ ایک ہی آیت میں ازواج رسول ﷺ کے لیے تنبیہ کا لہجہ ہے، لیکن اہل بیت اطہار علیہ السلام کے لیے تطہیر کا مژدہ۔ انداز تخاطب میں یہ واضح فرق اہل خرد کے لیے دعوت فکر ہے۔ یہاں یُرِیۡدُ اللّٰہُ سے ارادہ تشریعی نہیں، بلکہ ارادہ تکوینی مراد ہے۔ یعنی یہاں اہل بیت علیہ السلام کو پاکیزہ رہنے کا حکم (تشریعی) نہیں دیا جا رہا کیونکہ پاکیزہ رہنے کا حکم تو سب لوگوں کے لیے عام ہے، بلکہ یہاں اہل بیت علیہ السلام کی طہارت کے بارے میں اللہ کے ارادہ تکوینی کا اعلان ہے کہ اللہ نے انہیں پاکیزہ بنا دیا ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ انبیاء کو نبوت کا حکم تشریعی نہیں دیتا، بلکہ انہیں عملاً (تکویناً) نبی بنا دیتا ہے، اسی طرح یہاں اہل بیت علیہ السلام کو پاکیزہ رہنے کا حکم (تشریعی) نہیں دیا جا رہا بلکہ ان کی طہارت (تکوینی) کا اعلان ہو رہا ہے۔رہا یہ سوال کہ اہل بیت علیہ السلام کو اللہ نے تکویناً پاکیزہ بنا دیا ہے تو پھر اس میں خود ان کا کیا کمال؟ تو جواب یہ ہے کہ اولاً: یہی سوال انبیاء کے بارے میں بھی ہو سکتا ہے کہ اللہ نے انہیں نبی بنایا تو اس میں خود ان کا کیا کمال؟ ثانیاً: اہل بیت علیہ السلام کا کمال یہ ہے کہ کائنات میں صرف اہل بیت علیہ السلام ہی ارادہ الہی کے اہل ثابت ہوئے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اہل بیت علیہ السلام سے مراد کون ہیں؟ جواب یہ ہے کہ یہاں ہم قرآن کی تشریح کے لیے سنت رسول ﷺ کا سہارا لیں گے، وگرنہ بقول بعضے، قرآن اس کشتی کی مانند رہ جاتا ہے جس کا ناخدا نہ ہو۔ چنانچہ یہاں ائمہ اہل بیت علیہ السلام کے اجماع کے علاوہ صحیح المسلم باب فضائل اہل بیت النبی 2: 361 طبع حلبی مصر، صحیح الترمذی 5: 31، مسند احمد بن حنبل 1: 330 ط مصر، المستدرک للحاکم 3 :133، احکام القرآن جصاص 5: 230 ط قاہرہ، دیگر بیسیوں مصادر میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تصریح فرمائی ہے کہ اس آیت میں اہل بیت علیہ السلام سے مراد علی، فاطمہ، حسن اور حسین علیہم السلام ہیں۔ اس حدیث کو اہل سنت نے چالیس طُرُق سے اور شیعہ نے کم سے کم تیس طُرُق سے روایت کیا ہے۔ مجموعاً ستر (70) طُرُق سے رسول ﷺ کی یہ حدیث ہم تک پہنچی ہے۔ بہت کم احادیث ہیں جو اس حد تک تواتر سے روایت کی گئی ہوں۔

عورت کی بیرون خانہ سرگرمیوں کے جواز میں بڑی دلیل جو پیش کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ نے جنگ جمل میں حصہ لیا تھا۔ لیکن یہ استدلال جو لوگ پیش کرتے ہیں انہیں شاید معلوم نہیں کہ خود حضرت عائشہ کا اپنا خیال اس باب میں کیا تھا۔ عبد اللہ ابن احمد بن حنبل نے زوائد الزھد میں اور ابن المتزر ابن ابی شیبہ اور ابن سعد نے اپنی کتابوں میں مسروق کی روایت نقل کی ہے: حضرت جب تلاوت کرتی ہوئی اس آیت: وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ پر پہنچتی تھیں تو بے اختیار رو پڑتی تھیں یہاں تک کہ ان کا دوپٹہ بھیگ جاتا تھا،کیونکہ اس پر اپنی وہ غلطی یاد آ جاتی تھی جو ان سے جنگ جمل میں ہوئی تھی۔ (تفہیم القرآن)