آیات 28 - 29
 

وَ یَقُوۡلُوۡنَ مَتٰی ہٰذَا الۡفَتۡحُ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۲۸﴾

۲۸۔ اور یہ لوگ کہتے ہیں: اگر تم سچے ہو تو (بتاؤ) یہ فیصلہ کب ہو گا؟

قُلۡ یَوۡمَ الۡفَتۡحِ لَا یَنۡفَعُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِیۡمَانُہُمۡ وَ لَا ہُمۡ یُنۡظَرُوۡنَ﴿۲۹﴾

۲۹۔ کہدیجئے: فیصلے کے دن کفار کو ان کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا اور نہ ہی انہیں مہلت دی جائے گی۔

تفسیر آیات

۱۔ یَوۡمَ الۡفَتۡحِ: سے مراد بعض نے یوم بدر اور بعض نے فتح مکہ اور بعض نے روز قیامت لیا ہے۔ اور جملہ لَا یَنۡفَعُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِیۡمَانُہُمۡ کافروں کو اس دن ایمان لانا فائدہ نہیں دے گا کو قرینہ قرار دیتے ہیں کہ اس سے مراد قیامت ہے چونکہ دنیا میں تو ایمان فائدہ دیتا ہے۔

یَوۡمَ الۡفَتۡحِ سے مراد فتح مکہ لینے کی صورت میں بعض ایمان سے مراد امان لیتے ہیں کہ فتح مکہ کے بعد ملنے والی امان انہیں عذاب سے نہیں بچا سکتی اور بعض یہ لکھتے ہیں کہ فتح مکہ کے موقع پر جو لوگ قتل ہو گئے ہیں ان کے لیے ان کا ایمان فائدہ نہیں دیتا جیساکہ فرعون کا ایمان اس کے لیے فائدہ مند نہیں رہا تھا جب وہ غرق ہو رہا تھا۔

لفظ فتح قرآن مجید میں فتح و غلبہ کے معنوں میں کثرت سے استعمال ہوا ہے:

فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ فَتۡحٌ مِّنَ اللّٰہِ ۔۔۔۔ (۴ نساء: ۱۴۱)

اگر اللہ کی طرف سے تمہیں فتح حاصل ہو۔

فَافۡتَحۡ بَیۡنِیۡ وَ بَیۡنَہُمۡ فَتۡحًا ۔۔۔ (۲۶ شعراء: ۱۱۸)

پس تو ہی میرے اور ان کے درمیان حتمی فیصلہ فرما۔

مسلمان جب مشرکین کی طرف سے ظلم و ستم سہتے تھے تو اس وقت اللہ کی طرف سے ملنے والی فتح و نصرت اور غلبہ کا ذکر کیا کرتے تھے اور قرآن بھی ہمیشہ انہیں گذشتہ اقوام کے انجام بد اور انبیاء علیہم السلام کی فتح ونصرت کی خبریں بھی اسی غرض سے سناتا رہاہے تو مشرکین مسلمانوں سے تمسخر کے طور پر کہا کرتے تھے: مَتٰی ہٰذَا الۡفَتۡحُ ۔ یہ فتح جس کی تم روز ہمیں دھمکی دیتے رہتے ہو کب آنے والی ہے؟ میں ہٰذَا کا اشارہ اسی فتح کی طرف ہو سکتا ہے جس کا مسلمان ذکر کیا کرتے تھے۔ والعلم عند اللہ ۔


آیات 28 - 29